un cheezon ka bayan jin se rozah nahi jata

Thursday, 11 July 2013

اُن چیزوں کا بیان جن سے روزہ نہیں جاتا

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :1:بھول کر کھانے پینے سے روزہ رہا یا گیا؟

جواب : بھول کر کھایا پیا یا روزہ کے منافی کوئی اور کام کیا تو روزہ فاسد نہ وہوا۔ خواہ وہ روزہ فرض ہو یا نفل اور روزہ کی نیت سے پہلے یہ چیزیں پائی گئیں یا بعد میں۔( مختار ، ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :2:روزہ دار کو کھاتے پیتے وقت یا د دلانا چاہیے یا نہیں؟

جواب : کسی روزہ دار کو ان افعال میں دیکھے تو یاد دلاناواجب ہے یا د نہ دلایا تو گناہگار ہوا۔ مگر جب روزہ دار بہت کمزور ہو تو اس سے نظر پھیر لے۔ اور اس میں جوانی اور بڑھاپے کو کوئی دخل نہیں بلکہ قوت و ضعف یعنی طاقت اور جسمانی کمزوری کا لحاظ ہے۔ لہٰذا اگر جوان اس قد ر کمزور ہو کر یادد لائے گا۔ تو وہ کھانا چھوڑ دے گا اور کمزوری اتنی بڑھ جائے گی کہ روزہ رکھنا دشور ہو گا۔ اور کھالے گا تو روزہ بھی اچھی طرح پور کر لے گا اور دیگر عبادتیں بھی بخوبی ادا کرے گا۔ تو اس صورت میں یا د نہ دلانے میں حرج نہیں۔ بلکہ یاد نہ دلانا بہتر ہے۔ اور بوڑھا ہے مگر بدن میں قوت رکھتا ہے۔ تو اب یاد دلانا واجب ہے (ردالمحتار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :3:مکھی یا دھواں وغیر حلق میں جانے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟

جواب : مکھی یا دھواں یا غبار حلق میں چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ خواہ وہ غبار آٹے کا ہو کہ چکی پیسنے یا آٹا چھاننے میں اڑتا ہے یا غلہ کا ہو یا ہوا سے خاک اڑی۔ یا جانوروں کے کھریا ٹاپ سے غبار اڑ کر حلق میں پہنچا۔ اگرچہ روزہ دار ہونا یا د تھا (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :4: قصداًدھواں حلق کو پہنچا یا تو کیا حکم ہے؟

جواب : اگر خود قصداً کسی نے دھواں حلق میں پہنچایا تو روزہ فاسد ہو گیا۔ جب کہ روزہ دار ہونا یاد ہو۔ خواہ وہ کسی چیز کا دھواں ہو اور کسی طرح پہنچایا ہو۔ یہاں تک اگر بتی وغیرہ کی خوشبو سلگتی تھی ۔ اس نے منہ قریب کرکے دھوئیں کو ناک سے کھینچا روزہ جاتا رہا۔ یوں ہی حقہ پینے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے اگر روزہ یاد ہو اور حقہ پینے والا اگر قصداً پئے گا تو کفارہ بھی لازم آئے گا۔ (در مختار وغیرہ) یہی حکم بیڑی ،سگریٹ ، سگار چرٹ وغیرہ کے دھوئیں کا سے اگرچہ اپنے خیال میں حلق تک دھواں نہ پہنچا تا ہو ۔ (بہار شریعت)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :5:تیل یا سرما لگانے سے روزہ رہتا ہے یا نہیں؟

جواب : تیل یا سرمہ لگایا تو روزہ نہ گیا۔ اگرچ تیل یا سرمہ کا مزہ حلق میں محسوس ہوتا ہو۔ بلکہ تھوک میں سرمہ کا رنگ بھی دیکھائی دیتا ہو جب بھی نہیں ٹوٹتا۔ (جوہر ۔ ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :6:عام طور ر پیش آنے والی وہ کون سی صورتیں ہیں جن سے آدمی کا روزہ نہیں ٹوٹتا؟

جواب : مثلاً غسل کیاا ور پانی کی خنکی اندر محسوس ہوئی یا کلی کی اور پانی بالکل پھینک دیا صرف کچھ تری منہ میں باقی رہ گئی تھی۔ کہ تھوک کے ساتھ اسے نگل گیا۔ یا کان میں پانی چلا گیا ۔ یا دو ا کوٹی اور حلق میں اس کا مزہ محسوس ہوا۔ یا تنکے سے کان کھجایا اور اس پر کان کا میل لگ گیا۔ پھر وہی میل لگا ہوا تنکا کان میں ڈالا اگرچہ چند بار ایسا کیا۔ یا دانت یا منہ میں خفیف چیز بے معلوم سی رہ گئی کہ لعاب کے ساتھ خود ہی اتر گئی۔ یا دانتوں سے خون نکل کر حلق تک پہنچا مگر حلق سے نیچے نہ اترا۔ تو ان سب صورتوں میں رزہ نہ گیا۔ (درمختار، فتح القدیر وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :7:اپنا تھوک نگل جانے سے روزہ جاتا رہتا ہے یا نہیں؟

جواب : بات کرنے میں تھوک سے ہونٹ تر ہوگئے اور روزہ دار اسے پی گیا یا منہ سے راںٹپکی مگرتار نہ ٹوٹا تھا کہ اس چڑھا گیا۔ یا ناک میں ریزش (رینٹھ) آگئی بلکہ ناک سے باہر ہوگئی مگر منقطع (جدا) نہ ہوئی تھی کہ اسے چڑھا کر نگل گیا یا کھنکار منہ میں آیا اور کھا گیا اگرچہ کتنا ہی ہو روزہ نہ جائے گا۔ مگر ان باتوں سے احتیاط چاہیے (عالمگیری وغیرہ ) کہ یوں بھی قابل اعتراض حرکت ہے اور دوسروں کے سامنے ہو تو باعث نفرت بھی اور پھر نفاست کے خلاف بھی۔

سوال نمبر :8:بھولے سے کھانا کھاتے یاد آتے ہی لقمہ چھوڑ دیا تو کیا حکم ہے؟

جواب : روزہ دار اگر بھولے سے کھانا کھا رہا تھا اور یاد آتے ہی فوراً لقمہ پھینک دیا یعنی منہ سے اگل دیا۔ یا صبح صادق سے پہلے کھار ہا تھا کہ صبح ہوگئی اور اس نے صبح ہوتے ہی لقمہ اگل دیا تو روزہ نہ گیا۔ ہاں اگر نگل لیا تو دونوں صورتوں میں روزہ جاتا رہا۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُ :9:کسی کی غیبت سے روزہ رہا یا گیا؟

جواب : کسی کی غیبت کی تو روزہ نہ گیا اگر چہ غیبت بہت سخت کبیرہ گناہ ہے۔ قرآن مجید میں غیبت کی نسبت فرمایا جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ اور حدیث میں فرمایا غیبت زنا سے بھی بدتر ہے۔ اگرچہ غیبت کی وجہ سے روزہ کی نورانیت جاتی ر ہتی ہے (درمختاروغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :10:غسل فرض ہوتے ہوئے نہ نہائے تو کیا حکم ہے؟

جواب : جنابت یعنی ناپاکی کی حالت میں روزہ دار نے صبح کی بلکہ اگرچہ سارے دن جنب (بے غسلا) رہا روزہ نہ گیا ۔ مگر اتنی دیر تک قصداً غسل نہ کرنا تاکہ نماز قضا ہو جائے گناہ وحرام ہے۔ حدیث میں فرمایا کہ جنب جس گھر میں ہوتا ہے اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :11:تل کو چبا کر نگل گیا تو روزہ باقی رہا یا نہیں؟

جواب : تل یا تل کے برابر کوئی چیز چبائی اور تھوک کے ساتھ حلق سے اتر گئی تو روزہ نہ گیا۔ ہاں اگر اس کا مزہ حلق میں محسوس ہوتا ہو تو روزہ جاتا رہا۔ (فتح القدیر)

سوال نمبر ُُُُُ :12:آنسو یا پسینہ منہ میں چلا جائے تو کیا حکم ہے؟

جواب : آنسو میں چلا گیا اور نگل لیا اگر قطرہ در قطرہ ہے تو روزہ نہ گیا اور زیادہ تھا کہ اس کی نمکینی پورے منہ میں محسوس ہوئی تو جاتا رہا۔ پسینہ کا بھی یہی حکم ہے۔ (عالمگیری)

chaand dekhne ka bayan

چاند دیکھنے کا بیان

جمعہ, 07 نومبر 2008 07:53 حنفی فقہ - روزہ (صوم)  
سوال نمبر ُُُُُ :1چاند دیکھنے کے لیے حکم شرعی کیا ہے؟

جواب : پانچ مہینوں کا چاند دیکھنا واجب کفایہ ہے کہ بستی میں ایک دو آدمیوں نے دیکھ لیا تو سب بری الذمہ ہوگئے۔ اور کسی نے نہ دیکھا تو سب گناہگار ہوئے۔ وہ پانچ مہینے یہ ہیں : شعبان، رمضان، شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ۔ شعبان کا اس لیے کہ اگر رمضان کا چاند دیکھتے وقت ابریا غبار ہو تو لوگ تیس دن پورے کرکے رمضان شروع کر دیں۔ رمضان کا روزہ رکھنے کے لیے شوال کا روزہ ختم کرنے کے لیے، ذی قعد کا ذی الحجہ کے لیے ( کہ وہ حج کا خاص مہینہ ہے ) اور ذی الحجہ کا بقر عید کے لیے (فتاویٰ رضویہ)۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :2روزہ رمضان کب سے رکھنا شروع کریں؟

جواب : شعبان کی انتیس کو شام کے وقت چاند دیکھیں۔ دکھائی دے تو کل روزہ رکھیں ورنہ شعبان کے تیس دن پورے کرکے رمضان شروع کریں۔ اور روزہ رکھیں۔ حدیث شریف میں ہے ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر افطار کرو (یعنی روزے پورے کرکے عید الفطر مناؤ) اور اگر ابر ہو تو شعبان کی گنتی تیس پوری کر لو۔ (بخاری مسلم)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :3چاند کے ہونے نہ ہونے میں علم ہیت کا اعتبار ہے یا نہیں؟

جواب : جو شخص علم ہیت جانتا ہے اس کا اپنے علم ہیت (نجوم وغیرہ) کے ذریعہ سے کہہ دینا کہ آج چاند ہوا یا نہیں یہ کب ہوگا۔ یہ کوئی چیز نہیں ۔ اگر چہ وہ عادل ، دیندار، قابل اعتماد ہو اگر چہ کئی شخص ایسا کہتے ہوں ۔ کہ شروع میں چاند دیکھنے یا گواہی سے ثبوت کا اعتبار ہے کسی اور چیز پر نہیں۔ (عالمگیری وغیرہ)
مثلاً وہ ۲۹ شعبان کو کہیں آج ضرور رؤیت ہوگی۔ کل یکم رمضان ہے۔ شام کو ابر ہوگیا۔ رؤیت کی خبر معتبر نہ آئی ہم ہر گز رمضان قرار نہ دیں گے۔ بلکہ وہی یوم الشک ٹھہرے گا۔ یا وہ کہیں آج رؤیت نہیں ہوسکتی کل یقیناً ۳۰ شعبان ہے۔پھر آج ہی رؤیت پر معتبر گواہی گزری۔ بات وہی کہ ہمیں تو حکم شرع پر عمل فرض ہے۔ 

سوال نمبر ُُُ4:رمضان کے ثبوت کا شرعی طریقہ کیا ہے؟

جواب : ابرا ور غبار میں رمضان کا ثبوت ایک مسلمان عاقل بالغ دیندار عادل یا مستور کی گواہی سے ہو جاتا ہے۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور ابر میں رمضان کے چاند کی گواہی میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں (جبکہ ہر گواہی میں یہ کہنا ضروری ہے ) صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے اپنی آنکھ سے اس رمضان کا چاند آج یا کل فلاں دن دیکھا ہے۔ (مختار ، عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :5:عادل و مستور کے کیا معنی ہیں؟

جواب : عاد ل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ کم سے کم متقی ہو یعنی کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو اور صغیرہ پر اصرار نہ کرتا ہو۔ اور ایسا کام نہ کرتا ہو جو مروت کے خلاف ہے۔ مثلاً بازار میں کھانا یا شارع عام پر پیشاب کرنا یا بازار و عام گزر گاہ پر صرف بنیان و تہہ بند میں پھرنا ۔ (در مختار، ردالمحتار وغیرہ)
اور مستور وہ مسلمان ہے جس کا ظاہر حال شروع کے مطابق ہے مگر باطن کا حال معلوم نہیں۔ ایسے مسلمان کی گواہی رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور جگہ مقبول نہیں۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :6:فاسق کی گواہی مقبول ہے یا نہیں؟

جواب : فاسق اگرچہ رمضان المبارک کے چاند کی گواہی دے اس کی گواہی قابل قبول نہیں۔ رہا یہ کہ اس کے ذمہ گواہی لازم ہے یا نہیں ۔ اگر امید ہے کہ اس کی گواہی قاضی قبول کرلے گا۔ تواسے لازم ہے کہ گواہی دے۔ (در مختار) کہ ایک ایک کرکے اگر گواہوں کی تعداد حجم غفیر (کثیر مجمع) کو پہنچ جائے تو یہ بھی ثبوت رمضان کا ذریعہ ہے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :7:چاند دیکھ کر گواہی دینا لازم ہے یا نہیں؟

جواب : اگر اس کی گواہی پر رمضان المبارک کا ثبوت موقوف ہے کہ بے (بغیر) اس کی گواہی کے کام نہ چلے گا تو جس عادل شخص نے رمضان کا چاند دیکھا۔ اس پرواجب ہے کہ اسی رات میں شہادت ادا کرے۔ یہاں تک کہ پردہ نشین خاتون کے چاند دیکھا و اس پر گواہی دینے کے لیے اسی رات جانا واجب ہے اور اس کے لیے شوہر سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ (درمختار،ردالمحتار )

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :8:گواہی دینے والے سے کرید کرید کر سوال کرنا کیسا ہے؟

جواب : جس کے پاس رمضان کے چاند کی شہادت گزری اسے یہ ضروری نہیں کہ گواہ سے یہ دریافت کرے تم نے کہاں سے دیکھا اوروہ کس طرف تھا اور کتنے اونچے پر تھا وغیرہ وغیرہ (عالمگیری وغیرہ) مگر جب کہ اس کے بیان میں شہادت پیدا ہوں تو سوالات کرے۔ خصوصاً عید میں کہ لوگ خواہ مخواہ اس کا چاند دیکھ لیتے ہیں۔ (بہار شریعت)

سوال نمبر ُُُُُ :9:مطلع صاف ہو تو گواہی کا میعار کیا ہے؟

جواب : اگر مطلع صاف ہو تو جب تک بہت سے لوگ شہادت نہ دیں۔ چاند کا ثبوت نہیں ہو سکتا ۔ رہا یہ کہ اس کے لیے کتنے لوگ چاہئیں۔ یہ قاضی کے متعلق ہے۔ جتنے گواہوں سے اسے گمان غالب ہو جائے حکم دے دیا جائے گا۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :10:مطلع صاف ہو نے کی حالت میں ایک گواہی کب معتبر ہے؟

جواب : ایسی حالت میں جب کہ مطلع صاف تھا ایک شخص بیرون شہر یا بلند جگہ سے چاند دیکھنا بیان کرتا ہے۔ اور اس کا ظاہر حال مطابق شرع ہے تو اس کا قول بھی رمضان کے چاند میں قبول کر لیا جائے گا۔ (مختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :11:گاؤں میں چاند کی گواہی کس کے روبرو دی جائے؟

جواب :اگر کسی نے گاؤں میں چاند دیکھا اور وہاں کوئی ایسا نہیں جس کے پاس گواہی دے تو گاؤں والوں کو جمع کرکے شہادت ادا کرے ۔ اب اگر یہ عادل ہے یعنی متقی دین دار، خدا ترس اور حق پرست ہے۔ گناہوں سے دور بھاگتا ہے تو ان لوگوں پرروزہ رکھنا لازم ہے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :12:اگر لوگ کسی جگہ سے آکر چاند ہونے کی خبر دیں تو معتبر ہے یا نہیں؟

جواب : اگر کہیں سے کچھ لوگ آکر یہ کہیں کہ فلاں جگہ چاند ہو گیا ہے۔ بلکہ یہ کہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں۔ کہ فلاں جگہ چاند ہو بلکہ یہ شہادت دیں کہ فلاں فلاں نے چاند دیکھا بلکہ یہ شہادت دیں کہ فلاں جگہ کے قاضی نے روزہ رکھنے یا روزہ چھوڑ دینے اور عید منانے کے لیے لوگوں سے یہ کہا یہ سب طریقے ناکافی ہیں۔ (درمختار، ردالمحتار ) 
صاف بات یہ ہے کہ اگر خود اپنا چاند دیکھنا بیان کریں تو اگر گواہی معتبر ہے ورنہ نہیں۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :13:تنہا بادشاہ اسلام یا قاضی نے چاند دیکھا تو کیا حکم ہے؟

جواب : تنہا بادشاہ اسلام یا قاضی یا مفتی دین نے چاند دیکھا تو اسے اختیار ہے خواہ خود ہی روزہ رکھنے کا حکم دے یا کسی اور کو شہادت لینے کے لیے مقرر کرے۔ اور اس کے پاس شہادت ادا کرے لیکن اگر تنہا ان میں سے کسی نے عید کا چاند دیکھا تو انہیں عید کرنا یا عید کا حکم دینا نہیں۔ (عالمگیری در مختاری وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :14:گاؤں میں دوشخصوں نے عید کا چاند دیکھا تو ان کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب : گاؤں میں اگر دو شخصوں نے عید کا چاند دیکھا اور مطلع تھا ابر آلود یعنی ابرو غبار کے باعث ناصاف ۔ اور وہاں کوئی ایسا نہیں جس کے پاس یہ شہادت دیں تو گاؤں والوں کو جمع کرکے ان سے یہ کہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں۔ کہ ہم نے عید کا چاند دیکھا ہے۔ اگر یہ عادل ہوں تو لوگ عید کرلیں ورنہ نہیں۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُ ُُُُُ :15رمضان کے علاوہ اور مہینوں میں کتنے گواہ درکار ہیں؟

جواب : مطلع اگر صاف نہ ہو یعنی ابرو غبار آلودہ ہو تو علاوہ رمضان کے شوال و ذی الحجہ بلکہ تمام مہینوں کے لیے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں۔ اور سب عادل ہوں اور آزاد ہوں اور ان میں کسی پر تہمت زنا کی حد جاری نہ کی گئی ہو اگرچہ تو یہ کر چکا ہو تو ان کی گواہی رؤیت ہلال (یعنی چاند دیکھنے) کے حق میں قبول کر لی جائے گی )۔ اور یہ بھی شرط ہے کہ گواہ گواہی دیتے وقت یہ لفظ کہے ’’ میں گواہی دیتا ہوں‘‘ (عامۂ کتب)

سوال نمبر ُُُُ :16دن میں چاند دکھائی دیا تو وہ کس رات کا مانا جائے گا؟

جواب : دن میں ہلال دکھائی دیا ، زوال سے پہلے یا بعد از زوال، بہر حال وہ آئندہ رات کا قرار دیاجائے گا یعنی جو رات آئے گی۔ اس سے مہینہ شروع ہوگا تو اگر تیسویں رمضان کے دن میں چاند دیکھا گیا تو یہ دن رمضان ہی کا ہے شوال کا نہیں اور روزہ پورا کرنا فرض ہے۔ اور اگر شعبان کی تیسویں تاریخ کے دن میں دیکھا تو دن شعبان کا ہے رمضان کا نہیں۔ لہٰذا آج کا روزہ فرض نہیں ہے (درمختار، ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :17اگر انتیس شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو تیسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب : اگر ۲۹ شعبان کو مطلع صاف ہو اور چاند نظر نہ آئے تو نہ خواص روزہ رکھیں نہ عوام (فتاویٰ رضویہ) اور اگر مطلع پر ابر وغبار ہو تو مفتی کو چاہیے کہ عوام کو ضحوئہ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی تک انتظار کا حکم دے۔ کہ اس وقت تک نہ کچھ کھائیں پئیں۔ نہ روزے کی نیت کریں۔ بلانیت روزہ ، مثل روزہ رہیں۔ اس بیچ میں اگر ثبوت شرعی سے روایت ثابت ہو جائے تو سب روزے کی نیت کر لیں۔ روزئہ رمضان ہو جائے گا کہ ادائے رمضان کے لیے نیت کا وقت ضحوئہ کبریٰ تک ہے۔ اور اگر یہ وقت گزر جائے کہیں سے ثبوت نہ آئے تو مفتی عوام کو حکم دے کہ کھائیں پئیں۔ اور مسئلہ شرعی سے واقفیت رکھنے والے کہ یوم الشک میں اس طرح روزہ رکھا جاتا ہے تو وہ روز ے کی نیت کر لیں۔ (درمختار، فتاویٰ رضویہ وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :18:ایک شخص کسی خاص دن روزہ رکھنے کا عادی ہو اور وہ دن یوم الشک یعنی شعبان کی تیسویں کو پڑے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب : جو شخص کسی خاص دن کے روزے کا عاد ہو اور وہ دن اس تاریخ کو آن پڑے تو وہ اپنے اسی نفلی روزے کی نیت کر سکتا ہے بلکہ اسے اس دن روزہ رکھنا افضل ہے۔ مثلاً ایک شخص ہر پیر یا جمعرات کا روزہ رکھا کرتا ہے اور تیسویں اسی دن پڑی تو وہ روزہ نہ چھوڑے اور اس مبارک دن کے روزے کا ثواب ہاتھ سے نہ جانے دے۔

سوال نمبر ُُُُُ :19:چاند دیکھنے کی گواہی جس کی قبول نہ ہوئی تو وہ رکھے یا نہیں؟

جواب : کسی نے رمضان یا عید کا چاند دیکھا مگر اس کی گواہی کسی وجہ شرعی سے رد کر دی گئی۔ مثلاً فاسق ہے تو اسے حکم ہے کہ روزہ رکھے اگرچہ اپنے آپ اس نے عید کا چاند دیکھ لیا ہے ۔ اور اس صورت میں اگر رمضان کا چاند تھا اورا س نے اپنے حسابوں تیس روزے پورے کر لیے مگر عید کے چاند کے وقت پھر ابر و غبار ہے اور رؤیت ثابت نہ ہوئی تو اسے بھی ایک دن اور روزہ رکھنے کا حکم ہے۔ (عالمگیری ، درمختار) تاکہ مسلمانوں کے ساتھ موافقت کا اجر اس کے نامہ اعمال میں درج ہو اور یہ عام اسلامی برادری سے الگ تھلگ نہ رہنے پائے کہ یہ بڑی محرومی کی بات ہے۔

سوال نمبر :20:فاسق نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا پھر توڑ دیا تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب :اس کی دو صورتیں ہیں اور ہر صورت کا حکم علےٰحدہ ہے: 
(۱) اگر اس نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا پھر توڑ دیا۔ یا قاضی کے یہاں گواہی بھی دی تھی لیکن قاضی نے اس کی گواہی پر روزہ رکھنے کا عوام الناس کو حکم نہیں دیا تھا کہ اس نے روزہ توڑ دیا تو صرف اس روزے کی قضا دے۔ کفارہ اس پر لازم نہیں۔ 
(۲) اور اگر چاند دیکھ کر اس نے روزاہ رکھا اور قاضی نے اس کی گواہی بھی قبول کر لی ۔ تواس کے بعد اس نے روزہ توڑ دیا تو کفارہ بھی لازم ہے اگرچہ یہ فاسق ہو ( درمختار) کہ اس نے روزہ رمضان توڑا۔ 

سوال نمبر ُُُُُ :21:ایک جگہ چاند کا ثبوت ، دوسری جگہ کے لیے معتبر ہے یا نہیں؟

جواب :ایک جگہ چاند ہو تو وہ صرف وہیں کے لیے نہیںبلکہ تمام جہان کے لیے ہے مگر دوسری جگہ کے لیے اس کا حکم اس وقت ہے کہ ان کے نزدیک اس دن تاریخ میں چاند ہونا شرعی ثبوت سے ثابت ہو جائے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :22:دوسری جگہ کے لیے چاند ہونے کے شرعی ثبوت کا کیا طریقہ ہے؟

جواب :رؤیت ہلال کے ثبوت کے لیے شرع میں سات طریقے ہیں: 
(۱) خود شہادت رؤیت یعنی چاند دیکھنے والوں کی گواہی۔ 
(۲) شہادت علی الشہادۃ یعنی گواہوں نے چاند خود نہ دیکھا بلکہ دیکھنے والوں نے ان کے سامنے گواہی دی اور اپنی گواہی پر انہیں گواہ کیا۔ انہوں نے اس گواہی کی گواہی دی یہ وہاں ہے کہ گواہان اصل، حاضری سے معذور ہوں۔ 
(۳) شہادت علی القضاء یعنی دوسرے کسی اسلامی شہر میں حاکم اسلام کے یہاں رؤیت ہلال پر شہادتیں گزریں اور اس نے ثبوت ہلال کا حکم دیا اور دو عادل گواہوں نے جو اس گواہی کے وقت موجود تھے۔انہوں دوسرے مقام پر اس قاضی اسلام کے روبرو گواہی گزرنے اور قاضی کے حکم پر گواہی دی۔ 
(۴) کتاب القاضی الی القاضی یعنی قاضی شرع جسے سلطان اسلام نے مقدمات کا اسلامی فیصلہ کرنے کے لیے مقرر کیا ہو وہ دوسرے شہر کے قاضی کو گواہیاں گزرنے کی، شرعی طریقے پر اطلاع دے۔ 
(۵) استفاضہ یعنی کسی اسلامی شہر سے متعد جماعتیں آئیں اور سب یک زبان اپنے علم سے خبرد یں کہ وہاں فلاں دن ، رؤیت ہلال کی بنا پر روزہ ہوا یا عید کی گئی۔ 
(۶) اکمال مدت یعنی ایک مہینے کے جب تیس دن کامل ہو جائیں تو دوسرے ماہ کا ہلال آپ ہی ثابت ہو جائے گا کہ مہینہ تیس سے زائد کا نہ ہوتا یقینی ہے۔ 
(۷) اسلامی شہر میں حاکم شرع کے حکم سے انتیس کی شام کو مثلاً توپیں داغی گئیں یا فائر ہوئے تو خاص اس شہروالوں یا اس شہر کے گردا گرد دیہات والوں کے واسطے توپوں کی آوازیں سننا بھی ثبوت ہلال کے ذریعوں میں سے ایک ذریعہ ہے۔ 
لیکن (۲)سے (۵) نمبر تک چار طریقوں میں بڑی تفصیلات ہیں، جو فقہ کی بڑی کتابوں میں مذکورہ ہیں۔ الغرض حکم اللہ و رسول کے لیے اور حکم شرعی قاعدئہ شرعیہ ہی کے طور پر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے مقابل تمام قیاسات حسابات اور قرینے جو کہ عوام میں مشہور ہیں شرعاً باطل ہیں اور نا قابل اعتبار ۔ (فتاویٰ رضویہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :23:تار اور ٹیلیفون سے رؤیت ہلال ثابت ہو سکتی ہے یا نہیں؟

جواب :تار یا ٹیلیفون سے رؤیت ہلا ل ثابت نہیں ہو سکتی۔ نہ بازاری افواہ اوجنتریوں یا اخبارون میں چھپا ہونا کوئی ثبوت ہے۔ آج کل عموماً دیکھا جاتا ہے کہ انتیس رمضان کو بکثرت ایک جگہ سے دوسری جگہ تار بھیجے جاتے ہیں کہ چاند ہوا یا نہیں۔ اگر کہیں سے تار آگیا کہ ہاں یہاں چاند ہو گیا ہے۔ بس لو عید آگئی ۔ یہ محض ناجائز و حرام ہے۔ اور بالخصوص تار میں تو ایسی بہت سی وجہیں ہیں جو اس کے اعتبار کو کھوتی ہیں۔ ہاں کا نہیں اور نہیں کا ہاں ہو جانا تو معمولی بات ہے اور مانا کہ بالکل صحیح پہنچا تو یہ محض ایک خبر ہے شہادت نہیں۔ فقہاء کرام نے خط کا تو اعتبار ہی نہ کیا۔ اگر چہ مکتوگب الیہ ، یعنی جس خط پہنچا، کاتب کے دستخط اور تحریر کو پہچانتا ہو اور اس پر اس کی مہر بھی ہو کہ خط ، خط کے مشابہ ہوتا ہے اور مہر ، مہر کے تو کجا تار۔ 
یوں ہی ٹیلیفون کرنے والا، سننے والے کے پیش نظر دوبدو، آمنے سامنے نہیں ہوتا تو امور شرعیہ میں اس کا کچھ اعتبار نہیں اگرچہ اعتبار نہیں اگرچہ آواز پہچانی جائے کہ ایک آواز دوسری آواز سے مشابہ ہوتی ہے۔ اگر وہ کوئی شہادت دے معتبر نہ ہوگی اور اگر کسی بات کا اقرار کرے تو سننے والے کو اس پر گواہی دینے کی اجازت نہیں، (بہار شریف فتاویٰ رضویہ) حیرت ہے کہ مجازی حاکموں کی کچہریوں میں تار ٹیلیفون پر گواہی معتبر نہ ہو اور امور شرعیہ میں قبول کرلی جائے۔ حمیت اسلامی اور غیرت ایمانی بھی آخر کوئی چیز ہے۔ 

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :24:عوام الناس میں چاند کے بارے میں کچھ قاعدے مشہور ہیں شرعاً ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب :علم حساب کے ماہرین کی باتیں جو عوام میں پھیل گئی ہیں یا تحریر میں آچکی ہیں۔ رؤیت ہلال کے بارے میں ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ مثلاً چودھویں کا چاند سورج ڈوبنے سے پہلے نکلتا ہے اور پندرھوں کا بیٹھ کر۔ یہ دونوں باتیں رؤیت کے ثبوت میں نامعتبر ہیں یا کہتے ہیں کہ ہمیشہ رجب کی چوتھی ، رمضان کی پہلی ہوتی ہے۔ یہ غلط ہے ۔ یوں ہی رمضان کی پہلی ذی الحجہ کی دسویں ہونا ضروری نہیں۔ یا تجربہ میں آیا ہے کہ اکثر اگلے رمضان کی پانچویں ، اس رمضان کی پہلی ہوتی ہے ۔ لیکن شرع میں اس پر اعتماد نہیں کہ یہ صرف ایک تجربہ ہے۔ حکم شرعی نہیں جس پر احکام شرعیہ کی بنا ہو سکے۔ یوں ہی تجربہ ہے کہ بر ا بر چار مہینے سے زیادہ ۲۹ کے نہیں ہوتے ۔ لیکن رؤیت کا مداراس پر بھی نہیں، بہت لوگ چاند اونچا دیکھ کر بھی ایسی ہی انٹکلیں دوڑاتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں اگر ۲۹ کا ہوتا تو اتنانہ ٹھہرتا۔ یہ سب بھی ویسے ہی اوہام ہیں۔ جن پر شروع میں التفات نہیں۔ اس قسم کے حسابات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یک لخت ساقط کر دیا۔ صاف ارشاد فرماتے ہیں ہم امی امت ہیں نہ لکھیں نہ حساب کریں۔ دونوں انگلیاں تین بار اٹھا کر فرمایا مہینہ یوں اور یوں اور یوں ہوتا ہے تیسری دفعہ میں انگوٹھا بند فرما لیا یعنی انتیس اور مہینہیوں اوریوں یوں ہوتا ہے۔ ہربار سب انگلیاں کھلی رکھیں یعنی تیس۔ 
ہم بحمداللہ اپنے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے امی امت ہیں ہمیں کسی کے حساب و کتاب سے کیا کام، جب تک رؤیت ثابت نہ وہوگی نہ کسی کا حساب سنیں نہ تحریر مانیں نہ قرینے دیکھیں نہ اندازہ جانیں۔ (فتاویٰ رضویہ)


سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :25:چاند دیکھ کر کیا کرنا چاہیے؟

جواب :ہلال دیکھ کر اس کی طرف اشارہ نہ کریں کہ مکروہ ہے اگرچہ دوسرے کے بتانے کے لیے ہو ۔ نہ ہلال دیک کر منہ پھریں اور یہ جاہلوں میں مشہور ہے کہ فلاں چاند، تلوار پر دیکھے، فلا ں آئینے پر۔ یہ سب جہالت و حماقت ہے۔ بلکہ حدیث میں جو دعائیں فرمائیں، وہ پڑھنی کافی ہیں۔ مثلاً یہ دعا پڑھیں: 
اشھدک یا ہلال ان ربی و ربک اللہ ط اللھم الھہ علینا بالا من والا یمان والسلامتہ والاسلام والتو فیق لما تحب و ترضی۔(فتاویٰ رضویہ وغیرہ)
اے چاند میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میرا اور تیرا رب ، اللہ ہے۔ الہٰی اس چاند کو ہم پر امن و ایمان اور سلامتی واسلام کے ساتھ چمکا اور اپنی محبوب و پسندیدہ چیزوں کی توفیق کے ساتھ (اس کی روشنی ہم پر باقی رکھ)۔ 

روزے کی نیت کا بیان

روزے کی نیت کا بیان

سوال نمبر ُُُُ :1روزے کی نیت کا کیا مطلب ہے؟

جواب : جس طرح نماز میں بتایا گیا کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ زبان سے کہنا شرط نہیں، یہاں بھی وہی مراد ہے، مگر زبان سے کہہ لینا مستحب ہے تاکہ زبان و دل میں موافقت رہے ۔ (عامۂ کتب)

سوال نمبر ُُُُ :2نیت کے الفاظ کیا ہیں؟

جواب : اگر رات میں نیت کرے تو یوں کہے: نویت ان اصوم غداللہ تعالیٰ مین فرض رمضان ہذا، یعنی میں نے نیت کی کہ اللہ عزوجل کے لیے اس رمضان کا فرض روزہ کل رکھوں گا۔ اور عام طور پر مشہور یہ الفاظ ہیں :وبصوم غد نویت ان شاء اللہ تعالیٰ، اور دن میں نیت کرے تو یہ کہے: نویت ان اصوم ہٰذا الیوم للہ تعالیٰ من فرض رمضان ہٰذا، یعنی میں نے نیت کی کہ اللہ تعالیٰ کے لیے آج رمضان کا فرض روزہ رکھوں گا۔ 
اور اگر تبرک و طلب توفیق کے لیے نیت کے الفاظ ہیں ’’ انشا ء اللہ تعالیٰ ‘‘ بھی ملالیا تو حرج نہیں۔ اور پکاارادہ نہ ہو، مذبذب ہو تو نیت ہی کہاں ہوئی ( جوہر ہ نیرہ) تو روزہ بھی نہ ہوگا۔ 

سوال نمبر ُُُُُ :3نیت کب سے کب تک ہو سکتی ہے؟

جواب : ادائے روزہ رمضان نذرمعین اور نفل کے روزوں کے لیے نیت کا وقت غروب آفتاب سے ضحوئہ کبریٰ تک ہے یعنی جس وقت آفتاب خط انصف النہا ر شرعی پر پہنچے۔ اس سے پیشتر نیت ہو جانا ضروری ہے۔ ( در مختار) اسے آسانی کے لیے یوں سمجھ لو کہ زوال سے کم از کم ۳۹منٹ اور زیادہ سے زیادہ ۴۸ منٹ پیشتر روزے کی نیت کر لینی چاہیے۔ کہ اگرچہ ان تین قسم کے روزوں کی نیت دن میں بھی ہو سکتی ہے۔ مگر رات میں نیت کر لینا مستحب ہے۔ (در مختار ، جوہرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :4نیت کے بعد کچھ کھا پی لیا تو نیت باقی رہی یا نہیں؟

جواب : رات میں نیت کی پھر اس کے بعد رات ہی میں کھایا پیا تو نیت جاتی نہ رہی وہی پہلی کافی ہے ۔ پھر سے نیت کرنا ضروری نہیں (جوہرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :5روزہ توڑنے کی نیت سے روزہ رہتا ہے یا نہیں؟

جواب : جس طرح نماز میں کلام کی نیت کی مگر بات نہ کی تو نماز قاسد نہ ہوگی۔ یوں ہی رزے میں توڑنے کی نیت سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ جب تک توڑنے والی چیز نہ کرے ( جوہر ہ ) اور اگر رات میں روزہ کی نیت کی پھر پکا ارادہ کر لیا کہ نہیں رکھے گا تو وہ نیت جاتی رہی۔ اگر نئی نیت نہ کی اور دن بھر بھوکا پیاسا اور روزہ دار کی طرح رہا تو روزہ نہ ہوا۔ (در مختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :6سحری کھانا نیت میں شمار ہے یا نہیں؟

جواب : سحری کھانا بھی نیت ہے خواہ رمضان کے روزے کے لیے ہو یا کسی اور روزے کے لیے مگر جب سحری کھاتے وقت یہ ارادہ ہے کہ صبح کو روزہ نہ رکھوں گا۔ تو یہ سحری کھانا نیت نہیں (رد المحتار وغیرہ) ۔

سوال نمبر ُُُُ :7قضائے رمضان وغیرہ کی نیت کس وقت ضروری ہے؟

جواب : ادائے رمضان، نذرمعین اور نفل کے علاوہ باقی روزے مثلاً قضائے رمضان اور نذر غیر معین اور نفل کی قضا (یعنی نفلی روزہ رکھ کر توڑ دیا تھا اس کی قضا) اور نذر معین کی قضا اور کفارہ کا روزہ اور ایسے ہی اور روزے ، ان سب میں عین صبح چمکتے وقت یا رات میں نیت کرنا ضروری ہے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ جو روزہ رکھتا ہے خاص اس معین کی نیت کرے۔ ان روزوں کی نیت اگر دن میں کی تو نفل ہوئے۔ پھر بھی ان کا پورا کرنا ضروری ہے توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر :8شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو 30۔ کو نیت کس طرح کرے؟

جواب : اگر۲۹ شعبان کی شام کع مطلع پر ابرو غبار ہو اور چاند نظر نہ آئے تو شعبان کی تیسویں تاریخ کو (جسے یوم الشک کہتے ہیں) خالص نفل کی نیت سے روزہ رکھ سکتے ہیں اور نفل کے سوا کوئی اور روزہ رکھا تو مکروہ ہے۔ اب اگر اس دن کا رمضان ہونا ثابت ہو جائے تو مقیم کے لیے رمضان کا روزہ ہے اور مسافرنے جس کی نیت کی وہی ہوا اور اگر نیت تو خالص ہی کہ، کی اور پورا ارادہ نفلی روزہ رکھنے ہی کا ہے۔ مگر کبھی کبھی دل میں یہ خیال گزر جاتا ہے۔ کہ شاید آج رمضان کا دن ہو تو اس میں حرج نہیں۔ (درمختار، عالمگیری وغیرہ)

روزے کا بیان

روزے کا بیان

سوال نمبر ُُُُُ :1 روزہ کسے کہتے ہیں؟

جواب : روزہ جس عربی میں صوم کہتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں ’’رکنا اور چپ رہنا‘‘قرآن کریم میں ’’صوم‘‘ کو صبر سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ ضبط نفس ، ثابت قدمی اور استقلال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک روزہ کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی نفسانی ہوا و ہوس اور جنسی خواہشوں میںبہک کر غلط راہ پر نہ پڑے اور اپنے اندر موجود ضبط اور ثابت قدمی کے جوہر کو ضائع ہونے سے بچائے۔ 

روزمرہ کے معمولات میں تین چیزیں ایسی ہیں جو انسانی جوہر کو برباد کرکے اسے ہوا وہوس کا بندہ بنا دیتی ہیں یعنی کھانا، پینا اور عورت مرد کے درمیان جنسی تعلقات انہی چیزوں کو اعتدال میں رکھنے اور ایک مقررہ مدت میں ان سے دور رہنے کانام روزہ ہے۔ 

لیکن اصطلاح شریعت میں مسلمان کا بہ نیت عبادت ، صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے۔ عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے ۔ (عامہ کتب)

سوال نمبر ُُُُُ :2 اسلام میں روزہ کی کیا اہمیت ہے؟

جواب : اسلام میں روزہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ :
( ۱) یہ اسلامی ارکان میں سے چوتھا رکن ہے۔ 
(۲) روزے جسمانی صحت کو برقرار رکھتے بلکہ اسے بڑھاتے ہیں۔ 
(۳) روزوں سے دل کی پاکی، روح کی صفائی اورنفس کی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ 
(۴) روزے ، دولت مندوں کو،غریبوں کی حالت سے عملی طور پر باخبر رکھتے ہیں۔ 
(۵) روزے ، شکم سیروں اور فاقہ مستوں کو ایک سطح پر کھڑا کر دینے سے قوم میں مساوات کے اصول کو تقویت دیتے ہیں۔ 
(۶) روزے ملکوتی قوتوں کو قوی اور حیوانی قوتوں کو کمزور کرتے ہیں۔ 
(۷) روزے جسم کو مشکلات کا عادی اور سختیوں کا خوگر بناتے ہیں۔ 
(۸) روزوں سے بھوک اور پیاس کے تحمل اور صبر و ضبط کی دولت ملتی ہے۔ 
(۹) روزوں سے انسان کو دماغی اور روحانی یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ 
(۱۰) روزے سے بہت سے گناہوں سے انسان کو محفوظ رکھتے ہیں۔ 
(۱۱) روزے نیک کاموں کیلئے اسلامی ذوق و شوق کو ابھارتے ہیں۔ 
(۱۲) روزہ ایک مخفی اور خاموش عبادت ہے جو ریاونمائش سے بری ہے۔ 
(۱۳) قدرتی مشکلات کو حل کرنے اور آفات کو ٹالنے کے لیے روزہ بہترین ذریعہ ہے۔ ان فوائد کے علاوہ اور بہت فائدے ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میںہے۔ 

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :3 قرآن کریم میں روزہ کا مقصد کیا بیان کیا گیا ہے؟

جواب : قرآن کریم نے روزہ کے مقاصد اور اس کے اغراض تین مختصر جملوں میں بیان فرمائے ہیں: 
(۱) یہ کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کو کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کریں۔ 
(۲) ہدایت الہٰی ملنے پر خدائے کریم کا شکر بجالائیں کہ اس نے پستی و ذلت کے عمیق غار سے نکال کر ، رفعت و عزت کے اوج کمال تک پہنچایا۔ 
(۳) یہ کہ مسلمان پرہیز گار بنیں اور ان میں تقویٰ پیدا ہو۔ 
۔۔’’ تقویٰ‘‘ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تاہانہ تڑپ ہوتی ہے روزہ کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر یہی کیفیت پید ا ہو ۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ روزے ، خداترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور خدا کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان خدا کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائزاور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرات نہ کرے گا۔ اسی اخلاقی برتری کو ہم تقویٰ کہتے ہیں۔ 

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :4 احادیث میں روزہ کے جو فضائل آئے ہیں وہ بیان کریں؟

جواب : احادیث کریمہ روزے کے فضائل سے مالا مال ہیں۔ حضور پر نور سید عالم سرور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ:
(۱) جب رمضان آتا ہے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دےئے جاتے ہیں۔ اور شیاطین زنجیر وں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں (بخاری مسلم وغیرہ) ۔
(۲) جنت ابتدائے سال سے ، سال آئندہ تک رمضان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے اور جب رمضان کا پہلا دن آتا ہے تو جنت کے پتوں سے عرش کے نیچے ایک ہوا حورعین پر چلتی ہے وہ کہتی ہیں ۔ اے رب ! تو اپنے بندوں سے ہمارے لیے ان کو شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں (سہبیقی) ۔
(۳) جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازہ کا نام ریان ہے۔ اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں۔ (ترمذی وغیرہ)
(۴) روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ۔ ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت اور روزہ دار کے منہ کی بو، اللہ عزوجل کے نزدیک مشک سے زیادہ پا کیزہ ہے۔ (بخاری و مسلم وغیرہ) 
(۵) (رمضان المبارک کا مہینہ) وہ مہینہ ہے کہ اس کا اول رحمت ہے۔ اور اس کا اوسط (درمیانہ حصہ) مغفرت ہے اور آخر ، جہنم سے آزادی۔ (سہبیقی)
(۶) روزہ اللہ عزوجل کے لیے ہے اس کا ثواب اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا (طبرانی)
(۷) ہر شے کے لیے زکوٰۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے اور نصف صبر ہے (ان ماجہ) 
(۸) روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی ۔ (بہیقی)
(۹) اگر بندوں کی معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔ (ابن خزیمہ)
(۱۰) میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ باتیں دی گئیں کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں اول یہ کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے اللہ عزوجل ان کی طرف نظر فرماتا ہے۔ اور جس کی طرف نظر فرمائے گا۔ اسے کبھی عذاب نہ کرے گا ۔ دوسری یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو ، اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ اچھی ہے۔ تیسری یہ کہ ہر دن اور رات میں فرشتے ان کے لیے استغفار کرتے ہیں ۔ چوتھی یہ کہ اللہ عزوجل جنت کو حکم فرماتا ہے ۔ کہتا ہے مستعد ہو جا اور میرے بندوں کے لیے مزیں ہو جا (بن سنور جا) قریب ہے کہ دنیا کی تعب (مشقت تکان) سے یہاں آکر آرام کریں۔ پانچویں یہ کہ جب آخر رات ہوتی ہے۔ تو ان سب کی مغفرت فرمادیتا ہے ۔ کسی نے عرض کی کیا وہ شب قدر ہے؟ فرمایا ’’نہیں‘‘ کیا تو نہیں دیکھتا کہ کام کرنے والے کام کرتے ہیں جب کام سے فارغ ہوتے ہیں ۔ اس وقت مزدوری پاتے ہیں؟(بیہقی) 
(۱۱) اللہ عزوجل رمضان میں ہر روز د س لاکھ کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے۔ اور جب رمضان کی انتیسویں رات ہوتی ہے تو مہینے بھر میں جتنے آزاد کیے ان کے مجموعہ کے برابر اس ایک رات میں آزاد کرتا ہے۔ پھر جب عید الفطر کی رات آتی ہے ۔ ملائکہ خوشی کرتے ہیں اور اللہ عزوجل اپنے نور کی خاص تجلی فرماتا اور فرشتوں سے فرماتا ہے ’’ اے گروہ ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے کام پورا کر لیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ۔۔ ’’اس کو پورا اجر دیا جائے‘‘ اللہ عزوج فرماتا ہے میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں ان سب کو بخش دیا۔ (اصبہانی)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :5 روزے کے کتنے درجے ہیں؟

جواب : روزے کے تین درجے ہیں۔ ایک عام لوگوں کا روزہ کہ یہی پیٹ اور شرمگاہ کو کھانے پینے جماع سے روکنا۔ دوسرا اخواص کا روزہ کہ ان کے علاوہ کان ، آنکھ، زبان، ہاتھ ، پاؤں اور تمام اعضاء کو گناہ سے باز رکھنا۔ تیسرا خاص الخاص کا روزہ کہ جمیع ماسوا اللہ یعنی عزوجل کے سوا کائنات کی ہر چیز سے اپنے آپ کو بالکیہ جدا کرکے صرف اسی کی طرف متوجہ رہنا۔ (جوہر نیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :6 روزہ کی کتنی قسمیں ہیں؟

جواب : روزہ کی پانچ قسمیں ہیں: 
فرض، واجب، نفل، مکروئہ تنز یہی اور مکروئہ تحریمی۔ 

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :7 فرض وواجب کی کتنی قسمیں ہیں؟

جواب : فرض وواجب ہر ایک کی دو قسمیں ہیں معین، غیر معین۔

سوال نمبر ُُُُ :8 فرض معین کون سے روزے ہیں؟

جواب : فرض معین جیسے رمضان المبارک کے روزے جو اسی ماہ میں ادا کیے جائیں ۔ اور فرض غیر معین جیسے رمضان کے روزوں کی قضا اور کفارے کے روزے ، کفار ہ خواہ روزہ توڑنے کا ہو یا کسی اور فعل کا۔

سوال نمبر ُُُُ :9 واجب معین اور غیر واجب معین کون سے روزے ہیں؟

جواب : واجب معین جیسے نذر و منت کا وہ روزہ جس کے لیے وقت معین کر لیا ہو اور واجب غیر معین جس کے لیے وقت معین نہ ہو۔ 

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :10نفلی روزے کون کون سے ہیں؟

جواب : نفلی روزے جیسے عاشور اء یعنی دسویں محرم کا روزہ اور اس کے ساتھ نویں کا بھی ۔ ایام بیض یعنی ہر مہینے میں تیر ہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کا روزہ عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ ، شش عید کے روزے ، صوم داؤد علیہ السلام یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار ۔ پیر اور جمعرات کا روزہ ، پندرہویں شعبان کا روزہ ۔ ان کے علاوہ اور بھی روزے ہیں جن کا ثواب احادیث میں وارد ہوا ہے۔ اور ان نفلی روزوں میں کچھ مسنون ہیں اور کچھ مستحب ۔ (نور الا یضاح درمختار وغیرہ)۔

سوال نمبر ُُُُُ :11مکرؤہ تنز یہی کون سے روزے ہیں؟

جواب : جیسے صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنا کہ یہ یہودیوں کا سا روزہ ہے۔ نیروز اور مہرگان کہ روز آتش پرستوں میں رکھے جاتے تھے۔ صوم دہر یعنی ہمیشہ روزہ رکھنا۔ صوم سکوت یعنی ایسا روزہ جس میں کچھ بات نہ کرے، صوم وصال کہ روزہ رکھ کر افطار نہ کرے اور دوسرے دن پھر روزہ رکھ لے۔ یہ سب مکرؤ ہ تنز یہی ہیں۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :12مکرؤہ تحریمی کون سے روزے کہلاتے ہیں؟

جواب : جیسے عید البقر عید اور ایام تشریق (یعنی ذی الحجہ کی ۱۱،۱۲،۱۳ تاریخ ) کے روزے (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :13روزہ کی شرائط کیا ہیں؟

جواب : روزہ دار کا مکلف یعنی عاقل بالغ ہونا اور خاص عورت کے لیے حیض و نفاس سے خالی ہونا روزہ کے لیے شرط ہے (عامۂ کتب)۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :14نابالغ بچہ لڑکا خواہ لڑکی روزہ رکھے یا نہیں؟

جواب : نابالغ لڑکے یا لڑکی پر اگرچہ روزہ فرض نہیں، مگر حکم شریعت یہ ہے کہ بچہ جیسے ہی آٹھویں سال میں قدم رکھے اس کے ولی پر لازم ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دے اور جب بچہ کی عمر دس سال کی ہو جائے اور گیارہواں سال شروع ہو۔ اور اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اس سے روزہ رکھوایا جائے۔ نہ رکھے تو مار کر رکھوائیں۔ اگر پوری طاقت دیکھی جائے ، ہاں رکھ کر توڑ دیا تو قضا کا حکم نہ دیں گے اور نما ز توڑ ے تو پھر پڑھوائیں۔ (ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :15روزے کے فرض یا واجب ہونے کے اسباب کیا ہیں؟

جواب : روزے کے مختلف اسباب ہیں، روزہ رمضان کا سبب ، ماہ رمضان کا آنا، روزہ نذر کا سبب، منت ماننا، روزہ کفار ہ کا سبب، قسم توڑنا یا قتل و ظہار وغیرہ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :16رمضان المبارک کے روزے کب فرض ہوئے؟

جواب : رمضان المبارک کے روزے بھی ہجرت کے دوسرے ہی سال فرض ہوئے۔ (خازن) جب کہ لوگ تو حید نماز اور دیگر احکام قرآنی کے خوگر ہو چکے تھے اور چونکہ اصول اسلام کی روسے فاقہ مستوں کو روزہ کی جتنی ضرورت ہے۔ شکم سیروں کے لیے و ہ اس سے زیادہ ضروری ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ ۔۔’’چونکہ آغاز اسلام میں مسلمانوں کو اکثر فاقوں سے دو چار ہونا پڑتا تھا۔ اس لیے ان کو روزوں کا خوگر بنا دیا گیا‘‘۔ اگر ایسا ہوتا تو ظہور اسلام کے بعد ہی ، مکی زندگی کا اس کے لیے انتخاب کیا جاتا کہ مسلمانوں کی مالی حالت کے اعتبار سے موزوں ہو سکتا تھا۔ مگر ایسا نہ ہوا بلکہ روزہ وسط اسلام میں ہجرت بعد فرض کیا گیا ۔

سوال نمبر :17جو شخص روزہ نہ رکھے اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب : روزہ کا بلا عذر شرعی ترک کرنے والا سخت گناہگار اور فاسق و فاجر ہے اور عذاب جہنم کا مستحق ۔ اور رمضان المبارک میں جو شخص علانیہ بلا عذر شرعی قصداً کھائے پئے تو حکم ہے کہ اسے قتل کیا جائے (ردالمحتار)یعنی حاکم اسلام ایسے مسلمان کوتعزیراً قتل کر سکتا ہے۔

سوال نمبر ُُُُُ :18قمری حساب سے روزے فرض کرنے میں کیا حکمت ہے؟

جواب : خدا و رسول ہی اس کی حکمت کو بہتر جانتے ہیں۔ ہاں بظاہر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ قمری حساب پر رکھنے میں عام مسلمانوں کو یہ فائد ہ پہنچتا ہے کہ قمری مہینہ اول بدل کر آنے سے کل دنیا کے مسلمانوں کے لیے مساوات قائم کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شمسی مہینہ روزوں کے لیے مقرر کر دیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ موسم سرما کی سہولت میں روزے رکھتے اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ گرمی کی سختی اور تکلیف میں رہا کرتے اور یہ امر عالم گیر دین اسلام کے اصول کے خلاف ہوتا کیونکہ جب نصف دنیا پر سردی کا موسم ہوتا ہے تو دوسرے نصف پر گرمی کا موسم ہوتا ہے۔

Hazrat Umar Farooq ka Aqad Shahzadi Umme kulsum say

Hazrat Umar Farooq

The Marriage of `Umar ibn al-Khattab with Umm Kulthum bint `Ali (Allah be well-pleased with them)
Bismillah al-Rahman al-Rahim

Excerpts of an article by Sh. GF Haddad - Muharram 1425

The marriage of `Umar with Umm Kulthum al-Hashimiyya (6 - 49) the daughter of `Ali and Fatima took place on the year 17 of the Hijra. `Ali gave her away to `Umar upon his request although he was afraid at first that `Umar might not accept her due to her youth and because he wished her to marry one of her cousins among the sons of Ja`far ibn Abi Talib. But `Umar said, “Marry her to me for I swear I have toward her more dedication to excellent companionship than any man on the face of the earth.”

`Umar gave her a dowry of 40,000 dirhams in honor of her lineage to the Messenger of Allah, upon him blessings and peace.

He came to the Muhajirun among the Companions as they sat between the Grave and the Pulpit – their usual place for meeting `Umar to discuss news: “Felicitate this newlywed!” Then he told them he had married `Ali's daughter Umm Kulthum and said: 'I heard the Messenger of Allah say upon him blessings and peace: “Every lineage and means will be severed on the Day of Judgment except my lineage and my means.” I have kept company with him and wished to add this also.' Later he again said, on the pulpit: 'Do not disparage me [for marrying a young girl], for I heard the Prophet say upon him blessings and peace: “On the Judgment Day every means will be cut off and every lineage severed except my lineage.”

It is well-known that our liege-lord `Umar ibn al-Khattab Allah be well-pleased with him, had a particular veneration for the Prophetic Household (Ahl al-Bayt) as illustrated by the following additional reports:

(a) Ibn Sa`d narrated from al-Sha`bi and al-Hasan that al- `Abbas had some need of `Umar one day and said to him: "Commander of the Believers, suppose the uncle of Musa, upon him peace, came to you as a Muslim, how would you treat him?" He replied, "I swear by Allah that I would treat him well!" Al-`Abbas said, "Well, I am the uncle of Muhammad the Prophet - upon him and his House blessings and peace!" `Umar said, "Abu al-Fadl, and what do you suppose? By Allah, your father [`Abd al-Muttalib] is certainly dearer to me than my own father!" He said, "By Allah?" `Umar said, "By Allah, yes! Because I know that he [`Abd al-Muttalib] is dearer to the Messenger of Allah than my own father, therefore I prefer the love of the Messenger of Allah to my love."

b.) A man disparaged `Ali ibn Abi Talib in the presence of `Umar whereupon the latter said: "Do you know the dweller of this grave? He is Muhammad ibn `Abd Allah ibn `Abd al-Muttalib. And `Ali is the son of Abu Talib ibn `Abd al-Muttalib. Therefore, do not mention `Ali except in a good way for if you dislike him you will harm this one in his grave." Narrated by Ahmad with a good chain in Fada'il al-Sahaba (2:641 #1089).

c) After `Umar saw al-Husayn ibn `Ali ibn Abi Talib waiting at his door he said to him: "You are more deserving of permission to enter than [my son] `Abd Allah ibn `Umar! You see the goodness that was placed on our head; [therefore] first Allah then you [the Prophetic Household]" and he placed his hand on his head as he spoke. Narrated by Ibn Sa`d, Ibn Rahuyah, and al-Khatib.

(d) `Umar distributed garments to the Companions but found nothing appropriate for al-Hasan and al-Husayn so he sent a message to Yemen and had a kiswa sent, which he offered them. Then he said, “Now I am content.” Narrated by Ibn al-Jawzi in Manaqib `Umar (p. 97).

Umm Kulthum bore `Umar Zayd al-Akbar, known as Ibn al-Khalifatayn (= 'Son of the Two Caliphs' i.e. `Umar and `Ali) who became renowned for his great beauty, and a daughter, Ruqayya.

After `Umar died she remarried, upon `Ali's order, with `Awn ibn Ja`far ibn Abi Talib. When `Awn died `Ali remarried her with `Awn's brother Muhammad ibn Ja`far. Ibn Sa`d and al-Daraqutni claim that when the latter also died young, she remarried with his brother `Abd Allah ibn Ja`far who was widowed of her sister Zaynab bint `Ali – an anachronism since Zaynab outlived Umm Kulthum and was present at Karbala – where her two sons from `Abd Allah, Muhammad and `Awn [both named after their uncles], were killed.

Zayd al-Akbar died a young man, childless, from a stone throw in the time of Mu`awiya. Umm Kulthum died at the same time and Sa`id ibn al-`As ibn Sa`id or Ibn `Umar prayed over them, Allah have mercy on them.

Sources: Ibn al-Jarud, al-Muntaqa [an entirely sahih book] (p. 142); al-Zubayr ibn Bakkar, al-Muntakhab min Azwaj al-Nabi SallAllahu `alayhi wa-Sallam (p. 30-31); al-Dulabi, al-Dhurriyat al-Tahira (p. 62); Ibn Sa`d, Tabaqat (8:337-340=8:463-464); al-Siyar wal-Maghazi (p. 248); Tarikh al-Ya`qubi (2:260); Ibn Shabba's Tarikh al-Madina (2:654); Nasab Quraysh (p. 352); `Abd al-Razzaq, Musannaf (3:465); al-Nasa'i, Sunan (4:71) and Sunan Kubra (1:641); al-Bukhari, Tarikh al-Saghir (1:102); Ibn Qutayba, Ma`arif (p. 107, 122); al-Tabari, Tarikh (4:199 and 5:335); al-Daraqutni, Sunan (2:79); al-Bayhaqi, Sunan Kubra (4:33); Ibn `Abd al-Barr, Isti`ab (4:490-491); al-Nawawi, Tahdhib al-Asma' wal-Lughat (2:267 #1219); al- Dhahabi, Siyar A`lam al-Nubala' (Dar al-Fikr ed. 5:22-24) and Tarikh al- Islam (4:58-59, 4:137-139, 4:227, 5:21); al-Dimyati, Nisa' al-Rasul (p. 128); Ibn Hajar, Isaba (4:492 #1481); Ibn al-Athir, Usd al-Ghaba (7:387-388) and al-Kamil fi al-Tarikh (3:54, 4:12); al-Suyuti, al-Hawi lil-Fatawa (2:179); etc.

The following are some replies to various claims and inaccuracies regarding Syeda Umme Kalthum's Marriage To Syedina Umer

In Mishkat Shareef, it is reported that when Abubakr and Umar asked the holy Prophet for his daughter, Lady Fatima[sa]'s hand the Prophet replied she is too young to marry. If this is correct then think rationally over the fact that, Umme Kulthum[sa] whose mother was too young to marry these people, marries these same personalities, does this make sense?

Observe in the above lines the jump from the hadith "she is too young to marry" to the spin that she "was too young to marry these people".

Rather, as Sharh al-Mishkaat states (Dar al-Fikr ed. 10:476-477), she had been asked at an early time and the Prophet waited, upon him blessings and peace, for specific heavenly revelation concerning Fatima, period.

This is confirmed by the other version of the proposal of the Two Shaykhs of Islam - Allah be well-pleased with them - Abu Bakr and `Umar, in which the Prophet replies upon him and his Family and Companions blessings and peace: "The qada' [concerning this decision] has not been revealed yet."

Secondly, Umer's daughter, Hafsa was a wife of Prophet Muhammad . This makes Hafsa the Step-mother of Hz Fatima and the Step-Grandmother of UmmeKalthum, the daughter of Ali and Fatima. Do you know what this means? It makes Umer the Step-Great Grandfather of UmmeKalthum. The sunnis claim the daughter of Ali married her Great Grandfather? Is such sort of marriage allowed in Islam, please prove from the Quran.
It also makes Hadrat Umar - Allah be well-pleased with him - the step- grandfather of Fatima whom he did ask in marriage and the Prophet upon him blessings and peace, did not reply "This is not allowed in Islam"!

The reason is, this sort of marriage is definitely allowed in Islam and this *is* proven from the Qur'an. Read again the verses defining who is mahram from who is not in Surat al-Nisa'!

Umm Kulthum was the daughter of Ali Ibne Abi Talib. Sunni Historical evidence shows that the marriage of Umm Kulthum and Umar took place in the year 17 Hijri when Umm Kulthum was 5 or 4 years of age. This would put her date of birth to 12 or 13 Hijri. History of Abul Fida, vol I p 171 - al Farooq by Shibli Numani, vol II p 539
The above is a deceptive way of quoting because the sources only mention the date of the marriage as the year 17. They do not say Umm Kulthum was 5 or 4 that year nor anything about her date of birth. This is your own claim inserted as an historical premise, followed by your own conjecture.

Besides, the "History of Abul-Fida" is by the king of Hama, Isma`il ibn `Ali ibn Mahmud (d. 732) and Nu`mani is a contemporary. Surely, they must have an earlier transmitted basis for whatever they supposedly say. However, they did not say anything other than the date of marriage as the year 17.

Ibn Kathir's Tarikh states the year 16 for the marriage of `Umar with Umm Kulthum; so she was between 10 and 12 since her date of birth is mentioned by al-Dhahabi in Siyar A`lam al-Nubala' as around the 6th year after the Hijra. Allah knows best from where the claim that she "was 5 or 4" comes from.

Among the Shi`i sources that narrate the fact of this marriage from Imam Muhammad al-Baqir with the statement "Umm Kulthum bint `Ali ibn Abi Talib died at the same time as her son Zayd ibn `Umar ibn al-Khattab" and the narration from Muhammad ibn al-Hasan that "`Umar ibn al-Khattab married Umm Kulthum bint `Ali `alayhi al-Salam with a dowry of 40,000 dirhams":

1- Agha Burzug al-Tahrani's al-Dhari`a (5:184). 2- `Ali ibn Muhammad al-`Alawi's al-Mujdi fi Ansab al-Talibiyyin (p. 17). 3- Al-Fadil al-Hindi's Kashf al-Litham (2:312). 4- Al-Hurr al-`Amili's Wasa'il al-Shi`a Al al-Bayt (15:19, 17:594, 21:263, 26:314). 5- Muhammad ibn Habib al-Baghdadi's al-Munammaq fi Akhbar Quraysh (p. 301). 6- Al-Muhaqqiq al-Ardabili's Majma` al-Fa'ida (11:530). 7- Al-Muhaqqiq al-Naraqi's Mustanad al-Shi`a (19:452). 8- Al-Muhaqqiq al-Sabzawari's Kifayat al-Ahkam (p. 307). 9- Al-Sayyid Muhammad Sadiq al-Rawhani's Fiqh al-Sadiq (24:496). 10-Al-Shahid al-Thani's Masalik al-Afham (13:270). 11-Al-Shaykh al-Amini's al-Ghadir (6:136-137). 12&13- Al-Shaykh al-Tusi's al-Mabsut (4:272) and Tahdhib al-Ahkam (9:362-363). 14-Al-Shaykh al-Jawahiri's Jawahir al-Kalam (39:308).

Historical evidences show that Hazrat Fatima ( May Allah bless her ) passed away 6 month after the demise of his father,
Her father – Allah bless him and greet him.

and thus her date of death was in the year 11 Hijri, and that Umm Kulthum, daughter of Ali was born in the year 9 Hijri. Sahih al-Bukhari, Arabic-English Version, Tardition 5.546 - Anwarul Hussania, v3, p39
The above reference to al-Bukhari contains nothing about Umm Kulthum. Rather, al-Bukhari narrates in his Tarikh al-Saghir (1:102) - like everyone else - that Umm Kulthum had married `Umar. As for her date of birth is it is 6 Hijri as cited above.

Then how is it possible for Umm Kulthum to be born after the death of Hazrat Fatima  if the Sunnis claim that she was married to Omar in the year 17 Hijri at an age of 4 or 5 years, that would put the date of birth as 12 or 13 Hijri, which is long after the death of her mother?!
The Sunnis do not claim that she was 4 or 5 in the year 17 but 11 or 12.

Sunni historical evidence shows that Umm Kulthum (the so-called wife of Umar) died before 50 Hijri, since Imam Hasan , Abdullah ibn Umar and Sa'ad bin Abi Waqs offered the funeral prayers.
Not Sa`d ibn Abi Waqqas but Sa`id ibn al-`As (2-59) and he was the imam as the (universally respected) governor of Madina who had dearly wished to marry Umm Kulthum but desisted when he learnt of al-Husayn?s disapproval. It is also possible that he let Ibn `Umar be the imam. In the congregation there was also Abu Qatada (d. 54). This is agreed upon in BOTH the Sunni sources and the 14 Shi`i sources cited above. Some narrations in Ibn Sa`d, al-Bukhari, and al-Bayhaqi state that al-Hasan (d. 49) was part of the congregation, which brings the terminus ante quem for Umm Kulthum?s death to 49.

Also it is worthy to note that Imam Hasan  was martyred in the year 50 Hijri. [sources deleted]
Or 49.

But then other references show that Hazrat Umm Kulthum ( Blessings on her, the daughter of Imam Ali and Fatima Az Zahra ) were present in Kerballa during the year 61 Hijri.
ONLY SOME non-Sunni sources that stand out for their unreliability, such as Muruj al-Dahab by the Mu`tazili chronicler (akhbaari) al-Mas`udi (d. 345); Sharh al-Akhbar fi Fada'il al-A'immat al-At-har (3:198) by the ex-Maliki apostate (murtadd cf. Siyar, Fikr ed. 12:284), al-Qadi al-Nu`man ibn Muhammad ibn Mansur al-Maghribi (d. 363); Muthir al-Ahzan by Ibn Nama al-Hilli (d. 645); and Bihar al-Anwar by Muhammad Baqir al-Majlisi (d. 1111) among other similarly unscrupulous sources.

However, that claim is not found in the 14 Shi`i sources cited earlier nor in the Sunni sources.

The Siyar (Fikr ed. 4:418) among other Sunni sources only name the following Ahl al-Bayt women as present at Karbala' and taken prisoner:

- Zaynab and Fatima the daughters of `Ali; - Fatima and Sukayna the daughters of al-Husayn; - al-Rabab al-Kalbiyya the wife of al-Husayn and mother of Sukayna; - Umm Muhammad the daughter of al-Hasan ibn `Ali.

Sukayna is the one that spoke the famous words to Yazid, "Have you taken prisoner the daughters of the Messenger of Allah??" which words are spuriously attributed to Umm Kulthum bint `Ali in some of the non-Sunni accounts such as al-Raghib al-Asfahani's Maqatil al-Talibiyyin (p. 79) and the above-cited sources.

The only Umm Kulthum present in the whole episode of Karbala' was Yazid's own wife, Umm Kulthum bint `Abd Allah ibn `Amir.

Long after the incident of Kerballa Hazrat Zaineb binte Ali ( blessings on her ) died, then it was that Hazrat Abdullah bin Jafer Tayyar were married to Hazrat Umm Kulthum binte Ali (blessings on her ).
It is more likely that `Abd Allah ibn Ja`far (d. 80), unlike his two brothers `Awn and Muhammad [he also named his sons thus], was never married to Umm Kulthum (d. <49) at all but only to her sister zaynab (d. 61).

There is no contradiction to the fact that before Umm Kulthum binte Ali (blessings on her), Hazrat Zaineb (blessings on her ) were married to Abdullah bin Jafer ( blessings on him ).
The marriage of Zaynab to `Abd Allah ibn Ja`far is unquestioned.

Also it is true that till the year 61 Hijri (incident of Kerballa ) Hazrat Zaineb were alive, and that Umm Kulthum binte Ali were married after the year 61 Hijri to Hazrat Abdullah bin Jafer.
Incorrect: Zaynab was at Karbala' but Umm Kulthum had died before 49.

But where does the contradiction lie ? With respect to the first references, the lady married to Omar by the name Umm Kulthum died in the year before 50 Hijri, as Imam Hasan ( as ) had offered her funeral prayers. This leaves us to believe that the Umm Kulthum married to Omar were in fact some other lady and NOT the daughter of Imam Ali . Roza tul Ihbab Volume 3 page 585 - Al Bidayah wa al-Nihayah - Tareekhe Khamees Volume 3 page 318
This nonsense is definitely not in the latter two references nor even in the 14 Shi`i sources other than the few discrepant sources I've identified.

The Sunni scholar Ibn Qutaybah in his book "al Maarif " mentioned that all the daughters of Imam Ali(as) were married to the sons of Aqeel and Abbas with a few exceptions, but he did NOT mention the claim that Umm Kulthum (May Allah bless her) were married to Omar. The exceptions were for Ummul Hasan binte Saeed and Fatima. al-Maarif, Ibn Qutaybah, p 80
Wrong.

Ibn Qutayba said in al-Ma`arif (Beirut: Dar al-Kutub al-`Ilmiyya, 1987) p. 122:

"THE DAUGHTERS OF `ALI IBN ABI TALIB: As for Zaynab the elder the daughter of Fatima, she was [married] with `Abd Allah ibn Ja`far and gave him children whom we already named. As for Umm Kulthum the elder, also the daughter of Fatima, she was [married] with `Umar ibn al-Khattab and gave him children we also already named. When `Umar was killed Muhammad ibn Ja`far ibn Abi Talib married her. He died before her then `Awn ibn Ja`far ibn Abi Talib married her and she died before him. The rest of `Ali's daughters were married off to the sons of `Aqil and the sons of al-`Abbas except Umm al-Hasan -- she was married to Ja`da ibn Hubayra al-Makhzumi -- and except Fatima -- she was married to Sa`id ibn al-Aswad of Banu al-Harith ibn Asad."

The same Ibn Qutayba also says in the same book (p. 107):

"THE CHILDREN OF `UMAR IBN AL-KHATTAB FROM HIS BLOOD AND THEIR DESCENDENTS: .... also Fatima and Zayd, their mother being Umm Kulthum the daughter of `Ali ibn Abi Talib from his union with Fatima the daughter of the Messenger of Allah upon him blessings and peace. It is also said that Umm Kulthum's daughter from `Umar was named Ruqayya...."

For those who claim that such marriage happened; kindly answer the following questions.
What was the age for Omar at the time of the marriage ?

Approximately forty-seven. Umm Kulthum was between 10 and 12.

When Omar died what was the age of Umm Kulthum ?
Between 17 and 19. `Umar was fifty-four or five.

Could you briefly state the names of the wives of Omar?
1. `Atika bint Zayd ibn `Amr al-`Adawiyya. 2. Fukayha who gave him offspring. [Mulk al-yamin] 3. Luhayya al-Yamaniyya who gave him `Abd al-Rahman al- Asghar or al-Awsat, the latter known as Abu Shahma whom `Umar whipped for drunkenness. [May have been mulk al-yamin] 4. Mulayka bint Abi Umayya al-Khuza`iyya who may have given him `Ubayd Allah. 5. Qariba bint Abi Umayya al-Makhzumiyya [in Jahiliyya]. 6. Subay`a bint al-Harith al-Aslamiyya. 7. Umm `Asim Jamila bint Thabit al-Awsiyya who gave him `Asim. 8. Umm Hakim bint al-Harith al-Makhzumiyya who gave him Fatima. 9. Umm Kulthum bint `Ali al-Hashimiyya who gave him Ruqayya and Zayd al-Akbar but Ibn Qutayba in the Ma`arif names them Fatima and Zayd. 10. Umm Kulthum bint (`Amr ibn) Jarwal al-Khuza`iyya who gave him Zayd al-Asghar and `Ubayd Allah [in Jahiliyya] and whom al-Waqidi also calls Mulayka bint Jarwal, followed in this by Ibn Qutayba, Ibn Kathir, and Ibn al-Athir. 11. Zaynab bint Maz`un al-Jumahi who gave him `Abd Allah, Hafsa, and `Abd al-Rahman al-Akbar [in Jahiliyya and Islam].

Could you assert to the truthfulness of the character of the person who narrated this story ?
There are so many that it is mutawatir (mass-transmitted) including from the Imams of Ahl al-Bayt such as Ja`far al-Sadiq, from his father.

( I am talking about Zubair bin Bakar ) ?
He is "thiqa thabt" (extremely trustworthy) according to al- Baghawi and al-Khatib while al-Daraqutni, al-Dhahabi, Ibn Hajar and others simply grade him thiqa, which is the highest grade of reliability.

Do you know how many children were born of Umm Kulthum with the marriage to Omar ?
Two: a boy and a girl.

Who was this Umm Kulthum then ?
The daughter of `Ali and Fatima, raghima anfuk.

It would be appropriate to mention the other wives of Omar at this juncture, not only during his pagan days but also after embracing Islam. His first wife was Zainab sister of Uthman b. Mazun. His second wife was Qariba, daughter of Ibn Umait ul Makzami, and sister of the Holy Prophet's wife Umm Salma ( May Allah be pleased with her ). She was divorced in 6 A.H after the conclusion of the Truce of Hudaibiya. His third wife was Malaika, daughter of Jarul al Khuzai, who was also called Umm Kulthum, also she did not embrace Islam and was divorced in 6 A.H. On arrival at Medinah he married Jamila, daughter of Asim b. Thabit who was high placed Ansari and had fought at Badr. Jamila first name was Asia which the Holy Prophet changed to Jamila on her conversion to Islam. Omar divorced her also for some unknown reason. Omar also had other wives namely, Umm Hakim, daughter of al Harith b. Hisham al Makhzumi, Fukhia Yamania and Atika, daughter of Zaid b. Amr b. Nafil. Al Faruq - Volume II by Shibli Numani English Translation
See the list I gave.

... There was another Umm Kulthum who had been his wife but Historians make a clear distinction between the two ...
.... Yes, and they assert that he married both....

Now I would like to pose the following questions: Who is this other Umm Kulthum that has been mentioned in the historical references ? Is she the same Umm Kulthum that was divorced ( Malaika the third wife ) in 6 A.H ?
According to al-Waqidi, yes.

We also know that there were ' two ' Umm Kulthum's as Shibli Numani writes above, correct ?
Definitely.

Or is she the same Umm Kulthum that is the daughter of Abu Bakr ? If yes then why doesn't the author point out so ? What is the clear distinction then ?
The distinction is clear as day, they were two different persons. Move on.

There were at least nine Companions named Umm Kulthum. Add the Umm Kulthums of Jahiliyya and those of the Tabi`in. The fact that it was a popular proper noun might be confusing to some.

Here is the answer by from the historical documents: After the death of Abu Bakr a daughter was born to him that was named Umm Kulthum. Please refer to the following Sunni references to confirm this fact. [deleted]
This fact is undoubted and irrelevant.

Please also do bear in mind that Abu Bakr died in the year 13 A.H as mentioned in the following Sunni book of reference. [deleted]
Ditto.

This would imply that the original claim made by the first references I gave for the age of Umm Kulthum at the time of marriage of 4 or 5 years would stand correct.
Actually, you gave no references to that effect but conjectured the age yourself, which we established was completely inaccurate. However, Umm Kulthum bint Abi Bakr al-Siddiq might well have been 3 or 4 at the time.

Since for Umm Kulthum binte Abu Bakr to be born in 13 A.H and married in 17 A.H would give her an age of 4 years. Since Aisha was the elder sister of Umm Kulthum binte Abu Bakr, for this reason Omar had sent for Umm Kulthum hand's to Aisha, and Aisha had accepted this. Tareekhe Khamees Volume 2 page 267 - Tareekhe Kamil Volume 3 page 21 - Al Istiab by Ibn Abdul Barr Volume 2 page 795
Except that the same sources state that Umm Kulthum bint Abi Bakr *adamantly rejected* `Umar's proposal, after which `A'isha supposedly consulted `Amr ibn al-`As who supposedly dissuaded `Umar from pursuing the matter and supposedly persuaded him to ask for `Ali's daughter instead.

However, the same sources all agree with the remainder of the sources to the fact that `Umar ibn al-Khattab married the daughter of `Ali and Fatima, Allah be well-pleased with all of them, as referenced above.

Nor is there any contradiction between the two incidents supposing the proposal to Abu Bakr?s daughter actually took place and fell through.

This leaves us no doubt to believe that Umm Kulthum who was the daughter of Abu Bakr was married to Omar and NOT Umm Kulthum the daugher of Imam Ali  !!!
I have not seen this incoherent claim earlier than in the pages of al-Anwar al-`Alawiyya wal-Asrar al-Murtadawiyya (p. 436) by an ignoramus named al-Shaykh Ja`far al-Naqdi (d. 1370) who had the gall to introduce this fantasy with the words: "I say, I saw in a book whose title I do not remember at the moment, that of the Imams of guidance said, upon them peace....." A lie, no transmission chain, and no source -- Shi`ism in a nutshell.

Rather, as all of the above Sunni and Shi`i sources already showed, there is no doubt that the wife of `Umar was Umm Kulthum the daughter of `Ali.

In addition:

When `Ali was struck down by Ibn Muljam, Umm Kulthum said: "Ma li wali- Salat al-ghadat, qutila zawji Amir al-mu'minin salata al-ghadah, wa-qutila abi Salata al-ghadah! - What does the morning prayer want with me? My husband the Commander of the believers was killed at the morning prayer and my father was killed at the morning prayer!"

Narrated from al-Asbagh al-Hanzali by Ibn `Asakir in Tarikh Dimashq (42:555) cf. al-Dhahabi, Tarikh al-Islam (3:648-649) and Ibn Kathir, Bidaya (8:14).

Perhaps it was another `Ali, another Ibn Muljam, another Umm Kulthum, another Commander of the believers? Like they come up with another Tabari, another Ibn Qutayba......

Khateeb in his Tar'eekh even mentions that she tells her father that he called me, kissed me and then grabbed my ankle and said, "tell you father that I am pleased!
Yes, at the time `Ali himself had sent her to `Umar, and that report does state that he had dressed her up. `Abd al-Razzaq's version of the same report in his Musannaf (6:163 #10353) specifies that `Ali had previously told `Umar: "I shall send her to you and, if you agree, then she is your wife and I have married her to you."

Narrated in al-Khatib's Tarikh Baghdad (6:182), entry on Ibrahim ibn Mihran ibn Rustum al-Marwazi, with a fair chain according to Dr. Khaldun al-Ahdab in his book Zawa'id Tarikh Baghdad (5:209-214 #901). Allah knows best. 

حضرت حزقیل علیہ السلام کون تھے

حضرت حزقیل علیہ السلام کون تھے

حضرت حزقیل علیہ السلام  حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ ہیں جو منصب نبوت پر سرفراز کئے گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات اقدس کے بعد آپ کے خلیفہ اول حضرت یوشع بن نون علیہ السلام ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی۔ ان کے بعد حضرت کالب بن یوحنا علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خلافت سے سرفراز ہو کر مرتبہ نبوت پر فائز ہوئے۔ پھر ان کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین اور نبی ہوئے۔
     حضرت حزقیل علیہ السلام کا لقب ابن العجوز (بڑھیا کے بیٹے)ہے۔ اور آپ ذوالکفل بھی کہلاتے ہیں۔ ''ابن العجوز'' کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوئے تھے  جب کہ ان کی والدہ ماجدہ بہت بوڑھی ہوچکی تھیں۔ اور آپ کا لقب ذوالکفل اس لئے ہوا کہ آپ نے اپنی کفالت میں لے کر ستر انبیاء کرام کو قتل سے بچالیا تھا جن کے قتل پر یہودی قوم آمادہ ہو گئی تھی۔ پھر یہ خود بھی خدا کے فضل و کرم سے یہودیوں کی تلوار سے بچ گئے اور برسوں زندہ رہ کر اپنی قوم کو ہدایت فرماتے رہے۔
          (تفسیر الصاوی،ج۱،ص۲۰۶،پ۲،البقرۃ ۲۴۳)
مرد وں کے زندہ ہونے کا واقعہ

اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی، شہر میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے ان لوگوں پر موت کا خوف سوار ہو گیا۔ اور یہ لوگ موت کے ڈر سے سب کے سب شہر چھوڑ کر ایک جنگل میں بھاگ گئے اور وہیں رہنے لگے تو اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک عذاب کے فرشتہ کو اس جنگل میں بھیج دیا۔ جس نے ایک پہاڑ کی آڑ میں چھپ کر اور چیخ مار کر بلند آواز سے یہ کہہ دیا کہ ''موتوا''یعنی تم سب مرجاؤ اور اس مہیب اور بھیانک چیخ کو سن کر بغیر کسی بیماری کے بالکل اچانک یہ سب کے سب مر گئے جن کی تعداد ستر ہزار تھی۔ ان مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ ان کے کفن و دفن کا کوئی انتظام نہیں کرسکے اور ان مردوں کی لاشیں کھلے میدان میں بے گور و کفن آٹھ دن تک پڑی پڑی سڑنے لگیں اور بے انتہا تعفن اور بدبو سے پورے جنگل بلکہ اس کے اطراف میں بدبو پیدا ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے ان کی لاشوں پر رحم کھا کر چاروں طرف سے دیوار اٹھا دی تاکہ یہ لاشیں درندوں سے محفوظ رہیں۔
    کچھ دنوں کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اس جنگل میں ان لاشوں کے پاس گزر ہوا تو اپنی قوم کے ستر ہزار انسانوں کی اس موتِ ناگہانی اور بے گور و کفن لاشوں کی فراوانی دیکھ کر رنج و غم سے ان کا دل بھر گیا۔ آبدیدہ ہو گئے اور باری تعالیٰ کے دربار میں دکھ بھرے دل سے گڑگڑا کر دعا مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ میری قوم کے افراد تھے جو اپنی نادانی سے یہ غلطی کر بیٹھے کہ موت کے ڈر سے شہر چھوڑ کر جنگل میں آگئے۔ یہ سب میرے شہر کے باشندے ہیں ان لوگوں سے مجھے انس تھا اور یہ لوگ میرے دکھ سکھ کے شریک تھے۔ افسوس کہ میری قوم ہلاک ہو گئی اور میں بالکل اکیلا رہ گیا۔ اے میرے رب یہ وہ قوم تھی جو تیری حمد کرتی تھی اور تیری توحید کا اعلان کرتی تھی اور تیری کبریائی کا خطبہ پڑھتی تھی۔
     آپ بڑے سوزِ دل کے ساتھ دعا میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر یہ وحی اتر پڑی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ ان بکھری ہوئی ہڈیوں سے فرما دیجئے کہ اے ہڈیو! بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتا ہے کہ تم اکٹھا ہوجاؤ۔ یہ سن کر بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہر آدمی کی ہڈیاں جمع ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے۔ پھر یہ وحی آئی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ فرما دیجئے کہ اے ہڈیو!تم کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم گوشت پہن لو۔ یہ کلام سنتے ہی فوراً ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گوشت پوست چڑھ گئے۔ پھر تیسری بار یہ وحی نازل ہوئی۔ اے حزقیل اب یہ کہہ دو کہ اے مردو! خدا کے حکم سے تم سب اٹھ کرکھڑے ہوجاؤ۔ چنانچہ آپ نے یہ فرما دیا تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی ستر ہزار لاشیں دم زدن میں ناگہاں یہ پڑھتے ہوئے کھڑی ہو گئیں کہ ''سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ۔ پھر یہ سب لوگ جنگل سے روانہ ہو کر اپنے شہر میں آ کر دوبارہ آباد ہو گئے۔ اور اپنی عمروں کی مدت بھر زندہ رہے لیکن ان لوگوں پر اس موت کا اتنا نشان باقی رہ گیا کہ ان کی اولاد کے جسموں سے سڑی ہوئی لاش کی بدبو برابر آتی رہی اور یہ لوگ جو کپڑا بھی پہنتے تھے وہ کفن کی صورت میں ہوجاتا تھا۔ اور قبر میں جس طرح کفن میلا ہوجاتا تھا ایسا ہی میلا پن ان کے کپڑوں پر نمودار ہوجاتا تھا۔ چنانچہ یہ اثرات آج تک ان یہودیوں میں پائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کی نسل سے باقی رہ گئے ہیں۔
           (تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۷۸،پ۲،البقرۃ: ۲۴۳)
یہ عجیب و غریب واقعہ قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں خداوند قدوس نے اس طرح بیان فرمایا کہ:۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحْیَاہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ لَذُوۡ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوۡنَ ﴿243﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تواللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر اُنہیں زندہ فرما دیا بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔ (پ2،البقرۃ:243)
درس ہدایت:۔بنی اسرائیل کے اس محیر العقول واقعہ سے مندرجہ ذیل ہدایات ملتی ہیں:
(۱)آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر اپنی جان نہیں بچا سکتا۔ لہٰذا موت سے بھاگنا بالکل ہی بیکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو موت مقدر فرما دی ہے وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گی نہ ایک سیکنڈ اپنے وقت سے پہلے آسکتی ہے نہ ایک سیکنڈ بعد آئے گی لہٰذابندوں کو لازم ہے کہ رضاء الٰہی پر راضی رہ کر صابر و شاکر رہیں اور خواہ کتنی ہی وبا پھیلے یا گھمسان کا رن پڑے اطمینان و سکون کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور یہ یقین رکھیں کہ جب تک میری موت نہیں آتی مجھے کوئی نہیں مارسکتا اور نہ میں مرسکتا ہوں اور جب میری موت آجائے گی تو میں کچھ بھی کروں، کہیں بھی چلا جاؤں، بھاگ جاؤں یا ڈٹ کر کھڑا رہوں میں کسی حال میں بچ نہیں سکتا۔
(۲)اس آیت میں خاص طور پر مجاہدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ جہاد سے گریز کرنا یا میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا ہرگز موت کو دفع نہیں کرسکتا لہٰذا مجاہدین کو میدانِ جنگ میں دل مضبوط کر کے ڈٹے رہنا چاہے اور یہ یقین رکھنا چاہے کہ میں موت کے وقت سے پہلے نہیں مرسکتا نہ کوئی مجھے مار سکتا ہے۔ یہ عقیدہ رکھنے والا اس قدر بہادر اور شیر دل ہوجاتا ہے کہ خوف اور بزدلی کبھی اس کے قریب نہیں آتی اور اس کے پائے استقلال میں کبھی بال برابر بھی کوئی لغزش نہیں آسکتی۔ اسلام کا بخشا ہوا یہی وہ مقدس عقیدہ ہے کہ جس کی بدولت مجاہدین اسلام ہزاروں کفار کے مقابلہ میں تنہا پہاڑ کی طرح جم کر جنگ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ فتح مبین ان کے قدموں کا بوسہ لیتی تھی۔ اور وہ ہر جنگ میں مظفر و منصور ہو کر اجرِ عظیم اور مالِ غنیمت کی دولت سے مالا مال ہو کر اپنے گھروں میں اس حال میں واپس آتے تھے کہ ان کے جسموں پر زخموں کی کوئی خراش بھی نہیں ہوتی تھی اور وہ کفار کے دل بادل لشکروں کا صفایا کر دیتے تھے۔ شاعر مشرق نے اس منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے کسی مجاہد اسلام کی زبان سے یہ ترانہ سنایا ہے کہ  ؎
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
    حق سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
    تیغ کیا چیز ہے؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے


لطیفہ:۔منقول ہے کہ بنو امیہ کا بادشاہ عبدالملک بن مروان جب ملک شام میں طاعون کی وبا پھیلی تو موت کے ڈر سے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے شہر سے بھاگ نکلا اور ساتھ میں اپنے خاص غلام اور کچھ فوج بھی لے لی اور وہ طاعون کے ڈر سے اس قدر خائف اور ہراساں تھا کہ زمین پر پاؤں نہیں رکھتا تھا بلکہ گھوڑے کی پشت پر سوتا تھا۔ دورانِ سفر ایک رات اس کو نیند نہیں آئی۔ تو اس نے اپنے غلام سے کہا کہ تم مجھے کوئی قصہ سناؤ۔ تو ہوشیار غلام نے بادشاہ کو نصیحت کرنے کا موقع پا کر یہ قصہ سنایا کہ ایک لومڑی اپنی جان کی حفاظت کے لئے ایک شیر کی خدمت گزاری کیا کرتی تھی تو کوئی درندہ شیر کی ہیبت کی وجہ سے لومڑی کی طرف دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اور لومڑی نہایت ہی بے خوفی اور اطمینان سے شیر کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی۔ اچانک ایک دن ایک عقاب لومڑی پر جھپٹا تو لومڑی بھاگ کر شیر کے پاس چلی گئی۔ اور شیر نے اس کو اپنی پیٹھ پر بٹھالیا۔ عقاب دوبارہ جھپٹا اور لومڑی کو شیر کی پیٹھ پر سے اپنے چنگل میں دبا کر اڑ گیا۔ لومڑی چلا چلا کر شیر سے فریاد کرنے لگی تو شیر نے کہا کہ اے لومڑی! میں زمین پر رہنے والے درندوں سے تیری حفاظت کرسکتا ہوں لیکن آسمان کی طرف سے حملہ کرنے والوں سے میں تجھے نہیں بچا سکتا۔ یہ قصہ سن کر عبدالملک بادشاہ کو بڑی عبرت حاصل ہوئی اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ میری فوج ان دشمنوں سے تو میری حفاظت کرسکتی ہے جو زمین پر رہتے ہیں مگر جو بلائیں اور وبائیں آسمان سے مجھ پر حملہ آور ہوں، ان سے مجھ کو نہ میری بادشاہی بچا سکتی ہے نہ میرا خزانہ اور نہ میرا لشکر میری حفاظت کرسکتا ہے۔ آسمانی بلاؤں سے بچانے والا تو بجز خدا کے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہ سوچ کر عبدالملک بادشاہ کے دل سے طاعون کا خوف جاتا رہا اور وہ رضاء الٰہی پر راضی رہ کر سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے شاہی محل میں رہنے لگا۔
                                  (تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۷۸،پ۲،البقرۃ:۲۴۴)

Copyright @ 2013 Islamic Mission 786. Designed by Islamic Mission 786