aetakaf ka bayan

Friday 12 July 2013

اعتکاف کا بیان

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 1:اعتکاف سے کیا مراد ہے؟

جواب :مسجد میں، اللہ کے لیے یہ نیت عبادت ٹھہرانا اعتکاف ہے۔ یا یوں کہہ لو کہ مسجد میں تقرب الی اللہ کی نیت سے اقامت کرنے کی اعتکاف کہتے ہیں۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 2:اعتکاف کے لیے چند شرطیں ہیں؟

جواب :نیت اعتکاف ۔ لہٰذا بلا نیت مسجد میں ٹھہرا تو اعتکاف کا ثواب نہ پائے گا۔ مسلمان ہونا، عاقل ہونا، تو جس کے ہوش و حواس قائم نہیں اسے اعتکاف کا ثواب نہیں ایسی مسجد میں اعتکاف کرنا جہاں امام و موذن مقرر ہوں۔ اور عورت اعتکاف کرے تو اس کا حیض و جنابت سے پاک ہونا۔ جنابت سے پاک ہونا۔ (عالمگیری،ردالمحتار) کہ جنب کو مسجد میں جانا حلال نہیں۔ اعتکاف کی منت مانی ہو تو اس کے لیے روزہ دار ہونا۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 3:اعتکاف کے لیے بالغ ہونا بھی شرط ہے یا نہیں؟

جواب :بلوغ اعتکاف کے لیے شرط نہیں بلکہ نابالغ جو تمیز اور اچھے برے کا شعور رکھتا ہے اگر اعتکاف کی نیت سے مسجد میں ٹھہرے تو یہ اعتکاف صحیح ہے۔ (درمختار،ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ 4:اعتکاف کے لیے مسجد جامع ہونا شرط ہے یا نہیں؟

جواب :مسجد جامع ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں بھی ہوسکتا ہے۔ مسجد جماعت وہ ہے جس میں امام و موذن مقرر ہوں اگر چہ اس میں بچگانہ جماعت نہ ہوتی ہو (عامۂ کتب) 
اور آسانی اس میں ہے کہ مطلقاً ہر مسجد میں اعتکاف صحیح ہے۔ اگر چہ وہ مسجد جماعت نہ ہو۔ خصوصاً اس زمانہ میں کہ بہتری مسجدیں ایسی ہیں جن میں نہ امام ہیں نہ موذن ۔(ردالمحتار )

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 5:اعتکاف کس مسجد میں سب سے افضل ہے؟

جواب :سب سے افضل مسجد حرم شریف میں اعتکاف ہے ۔ پھر مسجد نبوی میں علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام ، پھر مسجد اقصیٰ میں۔ پھر اس میں جہاں بڑی جماعت ہوتی ہے۔ (جوہرہ نیرہ وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ 6:عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کی اجازت ہے یا نہیں؟

جواب :عورت کو مسجد میں اعتکاف مکرؤہ ہے بلکہ وہ گھر میں ہی اعتکاف کرے مگر اسی جگہ کرے جو اس نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کر رکھی ہے جسے مسجد بیت کہتے ہیں۔ اور عورت کے لیے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مقرر کر لے اور چاہیے کہ اسے پاک صاف رکھے اور بہتر یہ ہے کہ اس جگہ کو چبوترہ وغیرہ کی طرح بلند کرے۔ 
بلکہ مرد کو بھی چاہیے کہ نوافل کے لیے گھر میں کوئی جگہ مقرر کرلے کہ نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ (درمختار،ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 7:اعتکاف کی کتنی قسمیں ہیں؟

جواب :اعتکاف تین قسم پر ہے:
(۱) واجب کہ اعتکاف کی منت مانی یعنی زبان سے کہا۔ محض دل میں ارادہ سے واجب نہ ہوگا۔ 
(۲) سنت موکدہ کہ رمضان کے پورے عشرئہ اخیر میں کیا جائے۔ 
(۳) ان دو کے علاوہ اور جو اعتکاف کیا جائے و ہ مستحب و سنت غیر موکدہ ہے۔ 

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 8:اعتکاف رمضان کا کیا طریقہ ہے؟

جواب :بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت، بہ نیت اعتکاف مسجد میں ہو اور پورا عشرئہ اخیرہ یعنی آخر کے دس دن مسجد میں گزارے اور تیسویں کے غروب کے بعد، یا انتیس کو چاند ہونے کے بعد نکلے۔ اگر بیسویں تاریخ کو بعد نماز مغرب، نیت اعتکاف کی تو سنت ادا نہ ہوئی۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 9:رمضان کے عشرئہ اخیر کا اعتکاف کن پرہے؟

جواب :یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب مسلمان ترک کر دیں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذمہ ۔(درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 10:اعتکاف مستحب کا کون سا وقت مقرر ہے؟

جواب :اعتکاف مستحب کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں۔ جب مسجد میں اعتکاف کی نیت سے آدمی داخل ہوا۔ بلکہ جب مسجد میں اعتکاف کی نیت کی تو جب تک مسجد میں رہے گا ۔ اعتکاف کا ثواب پائے گا جب چلا آیا اعتکاف ختم ہو گیا۔ (عالمگیری وغیرہ)
فائدہ: یہ بغیرمحنت ثواب مل رہا ہے۔ کہ ادھر نیت اعتکاف کی ادھر ثواب ملا۔ تو اسے کھونا نہ چاہیے۔ مسجد میں اگر یہ عبارت دروازہ پر لکھ دی جائے کہ اعتکاف کی نیت کر لو۔ اعتکاف کا ثواب پاؤ گے تو بہتر ہے کہ جو اس سے ناواقف ہیں انہیں معلوم ہو جائے اور جو جانتے ہیں تو ان کے لیے یاددہانی ہو جائے۔ (بہار شریعت)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 11:اعتکاف میں روزہ شرط ہے یا نہیں؟

جواب :اعتکاف مستحب کے لیے روزہ شرط نہیں اور اعتکاف سنت یعنی رمضان شریف کی پچھلی دس تاریخوں میں جو کیا جاتا ہے اس میںروزہ شرط ہے اور منت کے اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُ 12:مریض یا مسافر نے بلاروزہ اعتکاف کیا تو سنت ادا ہوئی یا نہیں؟

جواب :اگر کسی مریض یا مسافر نے اعتکاف کیا مگر روزہ نہ رکھا تو سنت ادا نہ ہوئی بلکہ نفل ہوا (ردالمحتار ) نفل کا ثواب پائے گا۔

سوال نمبر ُُُُُ 13:بغیر روزہ اعتکاف کی منت مانی تو اب روزہ رکھنا واجب ہے یا نہیں؟

جواب :منت کے اعتکاف میں روزہ شرط ہے یہاں تک کہ اگر ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی اور یہ کہہ دیا کہ روزہ نہ رکھے گا ۔ جب بھی روزہ رکھنا واجب ہے۔ (درمختار، عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 14:رات کے اعتکاف کی منت صحیح ہے یا نہیں؟

جواب :رات کے اعتکاف کی منت مانی تو یہ منت صحیح نہیں کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا۔ یوں ہی اگر آج کے اعتکاف کی منت مانی اور کھانا کھا چکا ہے تو منت صحیح نہیں۔ یوں ہی اگر ضحوئہ کبریٰ کے بعد آج کے اعتکاف کی منت مانی اور روزہ نہ تھا تو یہ منت صحیح نہیں کہ اب روزہ کی نیت نہیں کر سکتا۔ بلکہ اگر روزہ کی نیت کر سکتا ہے۔ مثلاً ضحوئہ کبریٰ سے قبل منت مانی، جب بھی منت صحیح نہیں کہ یہ روز ہ نفل ہوگا۔ اور اس اعتکاف میں روزہ واجب درکار ہے۔ بلکہ اگر نفلی رکھا تھا اور اس دن کے اعتکاف کی منت مانی تو یہ منت صحیح نہیں کہ اعتکاف واجب کے لیے نفلی روزہ کافی نہیں ۔ اور یہ روزہ واجب ہو نہیں سکتا۔ (عالمگیری ،ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 15:مہینہ بھر اعتکاف کی منت مانی تو یہ منت رمضان میںا دا ہوسکتی ہے یا نہیں؟

جواب :ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی تو یہ منت رمضان میں پوری نہیں کر سکتا بلکہ خاص اس اعتکاف کے لیے روزے رکھنے ہوں گے۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 16:اعتکاف کی حالت میں مسجد سے نکلنے کی اجازت ہے یا نہیں؟

جواب :اعتکاف واجب میں، معتکف (اعتکاف کرنے والے) کو مسجد سے بلا عذر نکلنا حرام ہے اگر نکلا تو اعتکاف جاتا رہا۔ یوں ہی اعتکاف سنت بھی بغیر عذر نکلنے سے جاتا رہتا ہے۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 17:عورت اعتکاف میں، مسجد بیت سے باہر نکل سکتی ہے یا نہیں؟

جواب :عورت نے مسجد بیت (یعنی اپنے گھر میں نماز کے لیے مخصوص جگہ) میں اعتکاف کیا، خواہ یہ اعتکاف واجب ہو یا مسنون تو بغیر عذر وہاں سے نہیں نکل سکتی۔ اگر وہاں سے نکلی اگرچہ گھر ہی میں رہی تو اعتکاف جاتا رہا۔ (عالمگیری۔ردالمحتار )

سوال نمبر ُُُُُ 18:اعتکاف میں مسجد سے نکلنے کے لیے کیا عذر ہے؟

جواب :معتکف کو مسجد سے نکلنے کے لیے دو عذر ہیں۔ ایک حاجت طبعی (جس کا تقاضا انسانی طبیعت کرتی ہے) جیسے پاخانہ ، پیشاب، استنجا، وضو اور غسل کی ضرورت ہو تو غسل، دوسری حاجت شرعی مثلاً عید یا جمعہ کے لیے جانا۔ یا اذان کہنے کے لیے منارہ پر جانا جبکہ منارہ پر جانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہو۔ اور اگر منارہ کا راستہ اندر سے ہو تو غیر موذن بھی منارہ پر جا سکتا ہے۔ موذن کی تخصیص نہیں۔ (درمختار۔ردالمحتار )

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 19:معتکف وضو و غسل مسجد میں کر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب : معتکف کو وضو و غسل کے لیے جو مسجد سے باہر جانے کی اجازت ہے اس میں یہ شرط ہے کہ مسجد میں پانی کی کوئی بوند نہ گرے کہ وضو و غسل کا پانی مسجد میں گرانا نا جائز ہے۔ 
اور اگر لگن وغیرہ موجود ہو کہ اس میں وضو اس طرح کر سکتا ہے۔ کہ کوئی چھینٹ مسجد میں نہ گرے تو وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں نکلے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔ یوں ہی اگر مسجد میں وضو یا غسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اجازت نہیں (درمختار۔ردالمحتار )

سوال نمبر ُُُُ 20:قضا ئے حاجت کے بعد ، کسی اور ضرورت کے لیے مسجد سے باہر ٹھہر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب : معتکف ، قضائے حاجت کے لیے مسجد سے باہر گیا تو حکم ہے کہ طہارت کرکے فوراً مسجد میں چلا آئے۔ ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔ اور اگر معتکف کا مکان مسجد سے دور ہے اور اس کے دوست کا مکان قریب تو یہ ضروری نہیں کہ دوست کے یہاں قضائے حاجت کو جائے بلکہ اپنے مکان پر بھی جاسکتا ہے۔ اور اگر خود اس کے دومکان ہیں۔ ایک نزدیک دوسرا دور، تو نزدیک والے مکان میں جائے۔ کہ بعض مشائخ فرماتے ہیں دور والے میں جائے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (ردالمحتار ۔عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ 21:معتکف ، نماز جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد اعتکاف سے کب نکلے؟

جواب : جس مسجد میں اعتکاف کیا اگر وہاں جمعہ نہ ہوتا ہو اور قریب کی مسجد میں ہوتا ہے تو آفتاب ڈھلنے کے بعد اس وقت جائے کہ وہاں پہنچ کر اذان ثانی سے پیشتر سنتیں پڑھ لے۔ 
اور اگر وہ مسجد دور ہو تو زوال آفتاب سے پہلے بھی جاسکتا ہے۔ مگر اسی اندازہ سے جائے کہ اذان ثانی سے پہلے سنتیں پڑھ سکے۔ زیادہ پہلے نہ جائے ۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 22:نماز جمعہ کے بعد یہ معتکف کب تک اس مسجد میں رہ سکتا ہے؟

جواب :فرض جمعہ کے بعد اس معتکف کو چاہیے کہ چار یا چھ رکعتیں سنتوں کی پڑھ کر واپس مسجد اعتکاف میں چلا آئے اور ظہر احتیاطی پڑھنی ہے (کہ کسی شرط کے فوت ہو جانے کے باعث ، ادائیگی فرض جمعہ میں شک ہے) تو اعتکاف والی مسجد میں آکر پڑھے۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 23:ایسا معتکف اگر جامع مسجد ہی میں رہ گیا تو اعتکاف گیا یا رہا؟

جواب :یہ معتکف کہ صرف نماز جمعہ ادا کرنے اس مسجد میں آیا تھا اگر پچھلی سنتوں کے بعد اپنی مسجد میں واپس نہ آیا وہیں جامع مسجد میں ٹھہرا رہا۔ اگر چہ ایک دن رات تک وہیں رہ گیا یا اعتکاف وہیں پورا کیا تو بھی وہ اعتکاف فاسد نہ ہوا مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ (درمختار ۔ ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 24:معکتف نماز با جماعت کے لیے دوسری مسجد میں جاسکتا ہے یا نہیں؟

جواب :اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جہاں نہیں ہوتی تو نماز جماعت سے پڑھنے کے لیے اس مسجد سے نکلنے کی اجازت ہے۔ (ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 25:حاجت شرعی یا حاجت طبعی کے علاوہ اور کسی حاجت سے مسجد سے نکل سکتا ہے؟

جواب :حاجت شرعی و طبعی کے علاوہ ایک اور حاجت بھی ہے یعنی حاجت ضرور یہ ۔ مثلاً جس مسجد میں اعتکاف کیا تھا وہ مسجد گر گئی یا کسی نے مجبور کرکے وہاں سے نکال دیا۔ اسے قوی اندیشہ ہے کہ اگر اس مسجد میں رہا۔ تو اسے جانی یا مالی ناقابل برداشت نقصان اٹھانا پڑے گا تو ضروری ہے کہ یہ دوسری مسجد میں جائے لہٰذا دوسری مسجد میں چلا گیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوا۔ (عالمگیری ۔ نورالایضاح)

سوال نمبر ُُُُُ26:کسی ڈوبتے کو بچانے یا ایسی ہی کسی ضرورت سے مسجد سے نکلا تو کیا حکم ہے؟

جواب :اگر ڈوبنے یا جلنے والے کو بچانے کے لیے مسجد سے باہر گیا۔ یا گواہی دینے کے لیے گیا ۔ یا مریض کی عیادت یا نماز جنازہ کے لیے گیا اگرچہ کوئی دوسرا پڑھنے والا نہ ہو تو ان سب صورتوں میں اعتکاف فاسد ہو گیا۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ27اعتکاف میں بھولے سے روزہ میں کھا پی لیا تو اعتکاف رہا یا گیا؟

جواب :معتکف نے دن میں بھول کر کھا پی لیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوا۔ گالی گلوچ یا جھگڑے کرنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔ مگر بے نور اور بے برکت ہو جاتا ہے۔ (عالمگیری وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 28:اعتکاف کن چیزوں سے فاسد ہو جاتا ہے؟

جواب :مسجد اعتکاف سے بلا ضرورت نکلنا۔عورت سے جماع کرنا ۔ خواہ انزال ہو یا نہ ہو، قصداً ہو یا بھولے سے ، مسجد میں ہو یا باہر، رات میں ہو یا دن، عورت کا بوسہ لینا یا چھونا یا گلے لگانا۔ بشرطیکہ انزال ہو جائے۔ اور عورت اعتکاف میں ہو تو حیض و نفاس کا جاری ہو جانا۔ یا جنون طویل اور بے ہوشی کہ روزہ نہ ہو سکے۔ ان سب صورتوں میں اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے اور عورت کا بوسہ لینا یا چھونایا گلے لگا نامعتکف کو یوں بھی حرام ہے اگرچہ انزال نہ ہو کہ یہ معنوی طور پر وطی ہیں۔ (عالمگیری وغیرہ) ہاں احتلام سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔

سوال نمبر ُُُُُ 29:معتکف کو مسجد میں کون کون سے امور جائز ہیں؟

جواب : معتکف نکاح کر سکتاہے۔ اور عورت کو رجعی طلاق دی ہے تو قول سے رجعت بھی کر سکتا ہے۔ یوںہی معتکف مسجد میں کھائے، پئے ،سوئے مگر ان تمام امور کے لیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف جاتارہے گا۔ (عالمگیری ۔درمختار وغیرہ) اور کھانے پینے میںیہ احتیاط لازم ہے کہ مسجد آلودہ نہ ہو۔ اور معتکف کے سوا اور کسی کو مسجد میں کھانے پینے سونے کی اجازت نہیں اور یہ کام کرنا چاہیے۔ تو اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں جائے اور نماز پڑھے یا ذکر الہٰی کرے پھر یہ کام کر سکتا ہے۔ (ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 30:کسی ضرورت سے معتکف کو خرید و فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب :معتکف کو اپنی یا بال بچوں کی ضرورت سے مسجد میں کوئی چیز خرید نا یا بیچنا جائز ہے بشرطیکہ وہ چیز مسجد میں نہ ہو یا تھوڑی ہو کہ جگہ نہ گھیرے اور اگر خرید و فروخت بقصد تجارت ہو تو نا جائز ہے اگر چہ وہ چیز مسجد میں نہ ہو۔ درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ 31:اعتکاف میں بالکل خاموش رہنا کیسا ہے؟

جواب :معتکف اگر بہ نیت عبادت سکوت کرے یعنی چپ رہنے کو ثواب سمجھے تو مکرؤہ تحریمی ہے۔ اور اگر چپ رہنا ثواب کی بات سمجھ کر نہ ہو تو حرج نہیں۔ او بری بات سے چپ رہا تو یہ مکروہ نہیں بلکہ یہ تو اعلیٰ درجہ کی چیز ہے کیونکہ بری بات منہ سے نہ نکالنا واجب ہے۔ اور جس بات میں نہ ثواب ہو نہ گناہ یعنی مباح بات بھی معتکف کو مکروہ ہے مگر بوقت ضرورت اجازت ہے۔ اور بے ضرورت مسجد میں مباح کلام نیکیوں کو ایسے کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 32:اعتکاف کے دوران کن کاموں میں مشغول رہنا چاہیے؟

جواب : قرآن مجید کی تلاوت، حدیث شریف کی قرآت، درود شریف کی کثرت ، علم دین کا درس و تدریس، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے سیر (سیرت کا بیان ) و اذکار اور اولیا ، صالحین کی حکایات اور امور دین کی کتابت یا مسجد میں درس و تدریس و ذکر خیر کی مجلس ہو تو سماعت ۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ :33:اعتکاف چھوڑ دے تو اس کی قضا ہے یا نہیں؟

جواب :اعتکاف نفل اگر چھوڑ دے تو اس کی قضا نہیں کہ وہیں تک ختم ہو گیا اور اعتکاف مسنون جو کہ رمضان کی پچھلی دس تاریخوں تک کے لیے بیٹھا تھا، اسے توڑا تو جس دن توڑا فقط اس دن کی قضا کرے۔ پورے دس دنوں کی قضا واجب نہیں۔ اور منت کا اعتکاف توڑا تو اگر کسی معین مہینے کی منت تھی تو باقی دنوں کی قضا کرے۔ ورنہ اگر علی الاتصال (مسلسل، لگاتار، بلا ناغہ) اعتکاف واجب ہو ا تو سرے سے اعتکاف کرے اور اگر اعلیٰ الاتصال واجب نہ تھا۔ تو باقی کا اعتکاف کرے۔ (ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 34:اعتکاف بلا قصد ٹوٹ جائے تو اس کی قضا ہے یا نہیں؟

جواب :اعتکاف کی قضا صرف قصداً تو ڑنے سے نہیں بلکہ اگر عذر کی وجہ سے چھوڑا۔ مثلاً بیمار ہو گیا۔ یا بلا اختیار چھوٹا۔ مثلاً عورت کی حیض یا نفاس آگیا یا جنون و بہوشی طویل طاری ہوئی۔ ان میں بھی قضا واجب ہے۔ اور اگر ان میں بعض دن کا اعتکاف فوت ہو تو کل کی قضا کی حاجت نہیں۔ بلکہ اسی بعض کی قضا کر دے۔ اور کل فوت ہوا تو کل کی قضا ہے۔ اور منت میں علی الاتصال واجب ہوا تھا تو علی الاتصال یعنی مسلسل بلا ناغہ کل کی قضا ہے۔ (ردالمحتار)

un souraton ka bayan jin mein rozah na rakhne ki ijazat hai

اُن صورتوں کا بیان جن میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :1:روزہ نہ رکھنے کی کتنی صورتوں میں اجازت ہے؟

جواب :سفر، حمل، بچہ کا دودھ پلانا، مرض، بڑھاپا، خوف ہلاکت، اکراہ، نقصان عقل اور جہاد، یہ سب روزہ نہ نہ رکھنے کے لیے عذر ہیں کہ اگر ان وجوہ میں سے کسی وجہ سے کوئی روزہ نہ رکھے تو گناہگار نہیں۔ (ردالمحتار )

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :2:سفر سے کیا مراد ہے؟

جواب :سفر سے مراد، سفر شرعی ہے یعنی اتنی دور جانے کے ارادہ سے نکلے کہ یہاں سے وہاں تک تین دن کی مسافت ہو (درمختار) اگرچہ وہ سفر مثلاً ہوائی جہاز سے مختصر وقت میں پورا ہو جائے۔ حالت سفر میں خود اس مسافر کو اور اس کے ساتھ والے کو وقت میں پورا ہو جائے۔ حالت سفر میں خود اس مسافرا ور اس کے ساتھ والے کو روزہ رکھنے میں ضرور نہ پہنچے۔ تو روزہ رکھنا سفر میں بہتر ہے۔ ورنہ رکھنا بہتر۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ :3:دن میں کسی وقت سفر کا ارادہ ہو تو اس دن کا روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟

جواب :مثلاً آج کے دن کسی وقت سفر کے لیے نکلنا ہے تو یہ روزہ افطار کرنے کے لیے آج کا سفر عذر نہیں۔ اسے آج کا روزہ رکھنا چاہیے۔ البتہ اگر آج کا روزہ رکھ کر سفر میں توڑ دے گا تو کفارہ لازم نہ آئے گا مگر گناہگار ہوگا۔ اور روزہ رکھا تھا مگر سفر کرنے سے پہلے تو ڑدیا ۔ پھر سفر کے لیے نکلا تو کفارہ بھی لازم ہے۔ یوں ہی اگر دن مین سفر کیا اور مکان پر کوئی چیز بھول گیا تھا اسے لینے واپس آیا اور مکان پر آکر روزہ توڑ ڈالا تو بھی کفارہ واجب ہے۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :4:مسافر، دوپہر سے پہلے مقیم ہو جائے تو اب کیا حکم ہے؟

جواب :مسافر نے ضحوۃ کبریٰ سے پیشترکہ اس وقت تک روزہ کی نیت ضروری ہے اگر اقامت کی نیت کر لی اور ابھی کچھ کھایا پیا نہ تھا تو اس پر لازم ہے کہ اب روزے کی نیت کرے اور روزے رکھے۔ اس لیے کہ یہ سفر وقت نیت سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ (درمختار، عالمگیری وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :5:مسافر ضحوئہ کبریٰ کے بعد وطن واپس آجائے تو اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب :مسافر نے نیت اقامت کر لی یا وطن آگیا۔ اور اس نے اب تک کچھ کھایا پیا نہ تھا۔ تو روزہ تو نہیں ہوسکتا کہ نیت کا وقت نہیں مگر اسے لازم ہے کہ جو کچھ دن باقی رہ گیا ہے اسے روزہ داروں کی طرح گزارے۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :6:مرض کی وجہ سے کس وقت روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے؟

جواب :مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا غالب گمان ہو۔ یا خادم و خادمہ کو ناقابل برداشت ضعف کا غالب گمان ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔ (جوہرہ ، درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :7:بیماری بڑھ جانے کا وہم ہو تو روزہ چھوڑ سکتا ہے یا نہیں؟

جواب :روزہ چھوڑنے کے لیے محض وہم کافی نہیں بلکہ ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے اور غالب گمان کی تین صورتیں ہیں: 
(۱) اس کی ظاہری نشانی پائی جاتی ہے۔ 
(۲) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے۔ 
(۳) کسی مسلمان ، تجربہ کار طبیب و معالج نے جو کہ فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو۔ کہہ دیا ہو کہ روزہ رکھنے میں بیماری بڑھ جانے وغیرہ کا خطرہ اندیشہ ہے۔ 
اور اگر نہ کوئی علامت ہو، نہ تجربہ، نہ اس قسم کے طبیب نے اسے بتایا بلکہ کسی کافر یا فاسق طبیب و ڈاکٹر کے کہنے سے افطار کر لیا یعنی روزہ توڑد یا تو کفارہ لازم آئے گا (ردالمحتار) اور چھوڑ دیا تو گناہگار ہوگا۔ آج کل کے معا لجین میں یہ وبا پائی جاتی ہے کہ ذرا ذرا سی بیماری میں روزہ سے منع کر دیتے ہیں ۔ اتنی بھی تمیز نہیں رکھتے کہ کس مرض میں روزہ مضر ہے کس میں نہیں۔ ایسوں کا کہنا کچھ قابل اعتبار نہیں۔ (بہار شریعت)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :8:روزہ میںحیض و نفاس شروع ہو جائے تو کیا حکم ہے؟

جواب :روزے کی حالت میں حیض و نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جاتا رہا۔ اس کی قضا رکھے۔ روزہ فرض تھا تو اس کی قضا فرض ہے اور نفل تھا تو قضا واجب ۔ (عامۂ کتب )

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :9:حیض و نفاس والی دن میں پاک ہوگئی اور روزہ کی نیت کرلی تو روزہ ہو ا یا نہیں؟

جواب :عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا روزہ کے لیے شرط ہے۔ لہٰذا حیض و نفاس والی عورت صبح صادق کے بعد پاک ہوگئی اگرچہ ضحوئہ کبریٰ سے پیشتر اور روزہ کی نیت کر لی توآج کا روزہ نہ ہوا۔ نہ فرض نہ نفل۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :10:حیض و نفاس سے پاک ہوجائے تو عورت دن کس طرح گزارے؟

جواب : حیض و نفاس والی عورت پاک ہوگئی تو جو کچھ دن باقی رہ گیا ہے اسے روزے کے مثل گزارنا واجب ہے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :11:صبح صادق سے قبل عورت پاک ہو جائے تو غسل کے بغیر روزہ کی نیت کر سکتی ہے یا نہیں؟

جواب : اگر پورے دس دن پر پاک ہوئی اور اتنا وقت رات کا باقی نہیں کہ ایک بار اللہ اکبر کہہ لے تو اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے۔ لہٰذا نیت کرے اور بعد میں جلد از جلد غسل کرے۔ اور دس دن سے کم میں پاک ہوئی اور اتنا وقت ہے کہ صبح صادق سے پہلے نہا کر کپڑے پہن کر اللہ اکبر کہہ سکتی ہے۔ تو روزہ فرض ہے ۔ اگر نہالے تو بہتر ہے ورنہ بے نہائے نیت کرے اور صبح کو نہالے۔ اور جو اتنا وقت بھی نہیں تو روزہ فرض نہ ہوا۔ البتہ روزداروں کی طرح رہنا اس پر واجب ہے۔ کوئی بات ایسی جو روزے کے خلاف ہو۔ مثلاً کھانا، پینا حرام ہے۔ (عالمگیری وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :12:بڑی عمر کے بوڑھے مردوں اور عورتوں کے لیے رخصت کا حکم کس وقت ہے؟

جواب : ایسے بوڑھے مر د یا بوڑھی عورتیں جنہیں شریعت میں شیخ فانی کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ بوڑھے جن کی عمر اب ایسی ہوگئی کہ اب روز بروز کمزور ہی ہوتا جائے گا۔ جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ اس میں اتنی طاقت آنے کی امید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا۔ تو اب اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ البتہ اسے حکم ہے کہ ہرروزہ کے بدلے میں فدیہ دے۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :13:شیخ فانی گرمیوں کی بجائے سردیوں میں روزہ رکھے یا فدیہ دے؟

جواب : اگر ایسا بوڑھا یا بوڑھی ، گرمیوں میں بوجھ گرمی کے روزہ نہیں رکھ سکتا مگر جاڑوں میں رکھ سکے گا تو اب روزے افطار کرے یعنی چھوڑ دے۔ البتہ ان روزوں کے بدلے میں روزے جاڑوں میں رکھنا فرض ہے۔ ر وزوں کا کفارہ یہ نہیں دے سکتے۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :14:کمزوری کے باعث جو روزہ نہ رکھ سکے۔ اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب :کمزوری یعنی روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہونا ایک تو واقعی ہوتا ہے اورایک کم ہمتی سے ہوتا ہے۔ کم ہمتی کا کچھ اعتبار نہیں۔ اکثر اوقات شیطان دل میںڈالتا ہے کہ ہم سے یہ کام ہر گز نہ ہو سکے گا۔ اور کریں گے تو مر جائیں گے۔ پھر جب خدا پر بھروسہ کرکے کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ادا کرادیتا ہے۔ کچھ بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ معلوم ہو اکہ وہ شیطان کا دھوکا تھا۔ ۷۵برس کی عمر میں بہت لوگ روزے رکھتے ہیں۔ ہاں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ کہ کمزوری کے باعث ستر برس ہی کی عمر میں روزنہ رکھ سکیں۔ تو شیطان کے وسوسوں سے بچ کر خوب صحیح طور پر جانچنا چاہیے۔ ایک بات تو یہ ہوئی۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ ان میں بعض کو گرمیوں میں روزہ رکھنے کی طاقت واقعی نہیں ہوتی۔ مگر جاڑوں میں رکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی کفارہ نہیں دے سکتے۔ بلکہ گرمیوں میں قضا کر کے جاڑوں میں روزے رکھنا ان پر فرض ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ان میں بعض لگاتار مہینے بھر کے روزے نہیں رکھ سکتے مگر ایک دو دن بیچ میںناغہ کرکے رکھ سکتے ہیںتو جتنے رکھ سکیں اتنے رکھنا فرض ہے ۔ جتنے قضا ہو جائیں جاڑوں میں رکھ لیں۔ 
چوتھی بات یہ ہے کہ جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف (کمزوری) ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے۔ انہیں بھی کفارہ (فدیہ) دینے کی اجازت نہیں۔ بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں۔ اگر قبل شفا موت آجائے تو اس وقت کفارہ کی وصیت کر دیں۔ 
غرض یہ ہے کہ روزہ کا فدیہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں نہ لگا تار نہ متفرق۔ اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اس عذر کے جانے کی امید نہ ہو جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اسے ضعیف کر دیا کہ گنڈے دار (متواتر) روزے متفرق کرکے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو فدیہ کا حکم ہے۔ 
بعض جاہلوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ روز ہ کا فدیہ ہر شخص کے لیے جائز ہے جب کہ روزے میں اسے تکلیف ہو۔ ایسا ہر گز نہیں۔ فدیہ صرف شیخ فانی کے لیے رکھا گیا ہے جیسا کہ ابھی اوپر تفصیل سے گزرا ۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :15:بھوک پیاس سے آدمی نڈھال ہو جائے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب :بھوک پیاس ایسی ہو کہ ہلاک کا خوب صحیح ، یا نقصان عقل یا حواس کے جاتے رہنے کا اندیشہ ہو تو نہ رکھے۔ اور اس پر روزہ توڑنے کا کفارہ بھی نہیں۔ صرف قضا ہے یعنی ہر روزہ کے بدلے ایک روزہ ۔ (عالمگیری وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :16:جبرو اکراہ کی صورت میں روزہ توڑنے کی اجازت ہے یا نہیں؟

جواب :جبر واکراہ میں یعنی جب کہ روزہ دار کو روزہ نہ توڑنے پر عضو کے تلف ہو جانے یا ضرب شدید کی دھمکی یا جان سے ماردینے کی دھمکی دی جائے اور سمجھتا ہے کہ اگر میں نے روزہ نہ توڑا تو جو یہ کہتے ہیں وہ کر گزریں گے تو حکم ہے کہ روزہ توڑدے اور نہ توڑا یہاں تک کہ قتل کر ڈالا گیا تو گناہگار ہو ا کہ ان صورتوں میں اس کے لیے روزہ توڑنے یا معاذ اللہ شراب یا خون پینے یا مردار یا سو ر کا گوشت کھانے کی شرعاً اجازت ہے۔ جس طرح بھوک کی شدت اور اضطرار کی حالت میں یہ چیزیں مباح ہیں۔ البتہ یہ حکم روزہ دار مسافر یا مریض وغیرہ ایسے لوگوں کے لیے ہے جن کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر انھوں نے روزہ رکھ لیا اور اب جبر واکراہ کی صورت درپیش آئی۔ (ردالمحتار ، فتح القدیر وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :17:روزہ دار مقیم ہو تو جبرواکراہ کی صورت میں اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب :روزہ دار اگر مقیم یا تندرست ہو اور اسے روزہ توڑ نے پر مجبور کیا گیا تو اسے اختیار ہے چاہیے تو روزہ توڑ دے مگر افضل یہ ہے کہ افطار نہ کرے۔ اور ان کی اذیت پر صبر کرے۔ یہاںتک کہ اگر اسی حالت میں مارا گیا تو اسے ثواب ملے گا۔ (ردالمحتار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :18:روزہ کی حالت میں سانپ کاٹ لے تو روزہ توڑ دے یا نہیں؟ 

جواب :روزہ دار کو سانپ نے کاٹ لیا اور جان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں حکم ہے کہ وہ روزہ توڑ دے۔ (ردالمحتار )

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :19:جن لوگوں کو عذر کے سبب روزہ توڑنے کی اجازت ہے ان پر قضا فرض ہے یا نہیں؟

جواب :جن لوگوں نے عذر شرعی کی صورت میں روزہ توڑ ان پر فرض ہے کہ ان روزوں کی قضا رکھیں۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :20:قضاروزوں میں ترتیب فرض ہے یا نہیں؟

جواب :قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں لہٰذا اگر ان روزوں سے پہلے نفل روزے رکھے تو یہ نفلی روزے ہو گئے ۔ مگر حکم یہ ہے کہ عذر جانے کے بعد دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے قضا رکھ لیں۔ حدیث شریف میں فرمایا ’’جس پر اگلے رمضان کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے تو اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہ ہوں گے‘‘۔ اور اگر روزے نہ رکھے اور دوسرا رمضان آگیا تو اب پہلے اس رمضان کے روزے رکھ لے قضا نہ رکھے۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :21:فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو اب کیا حکم ہے؟

جواب :اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ آدمی روزے رکھ سکتا ہے تو جو فدیہ دے چکا ۔ وہ صدقہ نفل ہو گیا۔ ثواب پائے گا۔ لیکن اب حکم ہے کہ ان روزوں کی قضا رکھے۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :22:بوڑھے ماں باپ کی بجائے اس کی اولاد روزے رکھ سکتی ہے یا نہیں؟

جواب :ایک شخص کی طرف سے دوسرا شخص روزہ نہیں رکھ سکتا۔ (عامہ ء کتب)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :23فدیہ کی مقدار کیا ہے؟

جواب :شیخ فانی پر ہر روزے کے بدلے میں جو فدیہ واجب ہے وہ یہ ہے کہ ہر روزے کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار مسکین کو دے دے یا دونوں وقت اسے پیٹ بھر کھانا کھلاوے۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :24:روزہ کا فدیہ کب اور کس طرح دے سکتے ہیں؟

جواب :فدیہ میں یہ اختیار ہے کہ شروع رمضان ہی میں پورے رمضان کا ایک دم فدیہ دے دے یا آخر میں دے۔ اور اس میں تملیک شرط نہیں ۔ بلکہ اباحت بھی کافی ہے کہ مسکین کو دونوں وقت پیٹ بھر کھانا کھلا دے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جتنے فدیے ہوں اتنے ہی مساکین کو دے۔ بلکہ ایک مسکین کو کئی فدیے دئیے جاسکتے ہیں۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :25:بڑھاپے کی وجہ سے کفارے کے روزے نہ رکھ سکے تو کیا حکم ہے؟

جواب :قسم یا قتل کے کفارہ کا اس پر روزہ ہے اور بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس روزہ کا فدیہ نہیں دے سکتا کہ یہ روزے خود کھانا کھلانے کا بدل میں اور بدل کا بدل نہیں۔ اور روزے توڑنے یا ظہار کا اس پر کفارہ ہے تو اگر روزے نہ رکھ سکے۔ ساٹھ مسکینون کو کھانا کھلادے ۔ اس لیے کہ یہ فدیہ ، روزوں کے عوض ، قرآن سے ثابت ہے۔ (عالمگیری،ردالمحتار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :26ہمیشہ روزہ رکھنے کی نذر ماننے والا، اگر روزہ نہ رکھ سکے تو اسے روزہ چھوڑنے اور فدیہ دینے کی اجازت ہے یا نہیں؟

جواب : اگر کسی نے ہمیشہ روزہ رکھنے کی منت مانی لیکن برابر روزے رکھے تو کوئی کام نہیں کر سکتا۔ جس سے بسر اوقات ہو تو اسے بقدر ضرورت افطار (روزہ چھوڑنے) کی اجازت ہے۔ مگر حکم ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے میں فدیہ دے۔ اور اس کی بھی قوت نہ ہو تو استغفار کرے۔ (ردالمحتار )

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :27:جن لوگوں کو روزہ چھوڑنے کی شرعاً اجازت ہے اگر وہ بعد میں روزہ نہ رکھیں تو اب ان کے لیے حکم شرعی کیا ہے؟

جواب :مثلاً مریض تندروست ہو گیا یا مسافر سفر سے واپس آگیا اور اس نے فوت شدہ روزوں کے بقدر وقت پالیا تو ان پر ان تمام روزوں کی قضالازم ہے۔ جن کا وقت انہیں ملا اور وقت پالینے کے باوجود روزے نہ رکھے اور موت آگئی تو ان پر واجب ہے کہ ان روزوں کے فدیے کی وصیت کر جائیں۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :28:ایسے لوگ اگر اسی عذر میں مر جائیں تو اب کیا حکم ہے؟

جواب :اگریہ لوگ اپنے اسی عذر میں مر گئے اتنا موقع نہ ملا کہ قضا رکھتے تو ان پر ان روزوں کی قضا واجب نہ ہوئی۔ یوں ہی ان پر یہ واجب نہیں کہ فدیہ کی وصیت کر جائیں پھر بھی اگر وصیت کی کہ ان روزوں کا فدیہ دے دیا جائے تو وصیت صحیح ہو جائے گی۔ اور تہائی مال میں جاری ہوگئی۔ یعنی اس کے تہائی ترکہ میں سے فدیہ دیا جائے گا۔ اور اگر وصیت نہ کی بلکہ ولی نے اپنی طرف سے فدیہ دے دیا تو بھی جائز ہے۔ (درمختار، عالمگیری)

سوال نمبر29:تہائی مال میں فدیہ کی وصیت جاری ہونے کی کوئی شرط ہے یا نہیں ؟

جواب :تہائی مال میں فدیہ کی وصیت اس وقت جاری ہوگی۔ جب اس میت کے وارث بھی ہوں گے اور اگر وارث نہ ہوں اور سارے مال سے فدیہ ادا ہوتا ہو تو سب فدیہ میں صرف کر دینا لازم ہے۔ یوں ہی اگر وارث صر ف شوہر یا زوجہ ہے تو تہائی نکالنے کے بعد ان کا حق دیا جائے اس کے بعد جو کچھ بچے اگر فدیہ میں صرف ہو سکتا ہے تو صرف کر دیا جائیگا۔ (ردالمحتار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُ :30:فدیہ کی وصیت کتنے روزوں کے حق میں ہونی چاہیے؟

جواب :وصیت کرنا صرف اتنے ہیی روزوں کے حق میں واجب ہے۔ جن پر قادر ہوا تھا اور نہ رکھے۔ مثلاً سفر، مرض وغیرہ میں دس روز سے قضا ہوئے تھے۔ اور عذار جانے کے بعد (کہ مسافر وطن واپس آگیا، مریض تندرست ہوگیا) پانچ پر قادر ہوا تھا کہ انتقال ہو گیا تو پانچ ہی کی وصیت واجب ہے۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ 31:نماز اور روزے کے فدیہ کی مقدار میں کچھ کمی بیشی ہے یا نہیں؟

جواب :جس طرح روزہ کا فدیہ بمقدار صدقہ فطر ہے۔ یوں ہی ہر فرض ووتر کے بدلے نصف صاح گیہوں یا ایک صاع جو یا ان کی قیمت ہے۔ (عامۂ کتب)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :32:فدیہ کس قسم کے لوگوں کو دینا چاہیے؟

جواب :فدیہ کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ و صدقہ فطر کے مستحق ہیں۔ فقیر محتاج مسلمان کہ نہ ہاشمی ہوں نہ اس کی اولاد نہ یہ ان کی اولاد ۔ (عامۂ کتب)

sehri wa iftaar ka bayan

سحری و افطار کا بیان

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :1:روزہ کے لیے سحری کھانا فرض ہے یا سنت؟

جواب :سحری کھانا نہ فرض ہے نہ سنت موکدہ کہ سحری نہ کھائے تو ترک سنت کا وبال اس پر پڑے بلکہ مستحب ہے اور باعث بر کت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تین چیزوں میں بڑی برکت ہے۔ جماعت اور ثرید اور سحری میں اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر درود بھیجتے ہیں۔ (عامۂ کتب)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :2:سحری کا وقت مستحب کیا ہے؟

جواب :سحری میں تاخیر مستحب و مسنون ہے۔ صحیح حدیث شریف میں ہے کہ میری امت ہمیشہ خیر سے رہے گی۔ جب تک افطار میں جلدی اور سحری میں دیر کرے گی۔ اور تاخیر سحری کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت تک کھائے جب تک طلوع فجر کا ظن غالب نہ ہو۔ (درمختار وغیرہ) اور اتنی تاخیر مکروہ ہے کہ صبح ہو جانے کا شک ہو جائے۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :3:سحری کا بالکل چھوڑ دینا کیسا ہے؟

جواب :سحری بالکل نہ کھانا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی فعل کے بھی خلاف ہے اور حکم نبوی کی بھی اس ترک میں خلاف ورزی ہے۔ 

مسلم و ابوداؤد میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہمارے اوراہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کا لقمہ ہے۔ اس لیے کم از کم ایک لقمہ کھالے یا ایک گھونٹ پانی ہی پی لے تاکہ روزہ مطابق سنت نبوی ہو۔ حدیث شریف میں ہے۔ کہ سحری کل کی کل برکت ہے اسے نہ چھوڑنا اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی پی لے ۔(امام احمد)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :4:سحری شکم سیر ہو کر کھائے یا مختصر؟

جواب :اتنا کھانا کہ طبیعت مضمحل رہے اور دن میں کٹھی ڈکاریں آتی رہیں یوں بھی کوئی پسندیدہ بات نہیں۔ اور پھر روزہ کے مقصود کے برخلاف بھی ہے۔ روزہ کا مقصود شہوات نفسانیہ کو روزہ کی گرمی سے توڑنا ہے اور جب خوب پیٹ بھر کھا یا تو یہ نفس کی خدمت اور اس کی پرورش ہوئی۔ مشقت کا ثواب تو یوں بھی گیا اور غریبوں ، مسکینوں کی بھوک و پیاس کا احساس اور ان کے ساتھ ہمددری و خیر خواہی کے جذبات کا بیدار ہونا ، یہ بھی حاصل نہ ہوا۔ لہٰذا نہ شکم سیر ہو کر کھائے نہ اتنا مختصر کہ دن بھر خوردونوش ہی کی طرف دھیان رہے۔ راہ اعتدال اختیار کرے اور بقدرکفایت کھائے۔ (طحطاوی وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :5:سحری میں مرغ کی اذان کا اعتبار ہے یا نہیں؟

جواب :سحری کے وقت مرغ کی اذان کا اعتبار نہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ صبح سے بہت پہلے مرغ اذان شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت صبح ہونے میں بہت وقت باقی رہتا ہے۔ یوں ہی بول چال سن کر اور روشنی دیکھ کر بولنے لگتے ہیں۔ (بہار شریعت،ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :6:تارے دیکھ کر افطار کرنا صحیح ہے یا نہیں؟

جواب : تارے کی سند شرعی نہیں۔ بعض تارے دن میں چمک آتے ہیں تو انہیں دیکھ کر روزہ افطار کرنا کیونکر جائز و صحیح ہو سکتا ہے۔ اور اگر افطار میں اتنی تاخیر کی کہ غروب آفتاب کے بعد جو ستارے عموماً چمکتے ہیں ان ستاروں میں سے کوئی ستارہ چمک آیا تو یہ رافضیوں کا طریقہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ میری امت میری سنت پر رہے گی۔ جب تک افطار میں ستاروں کا انتظار نہ کرے۔ (ابن حبان) اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ دین ہمیشہ غالب رہے گا‘‘ جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے کہ یہود و نصاری تاخیر کرتے ہیں (ابو داؤد وغیرہ) غرض دارومدار اس پر ہے کہ جب آفتاب تمام و کمال ڈوبنے پر یقین ہو جائے فوراً روزہ افطار کر لیں۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :7:کسی مسجد سے اذان کی آواز سن کر روزہ افطار کرنا چاہیے یا نہیں؟

جواب :اگر گمان غالب و یقین ہے کہ سورج غروب ہو چکا یا اذان کی آواز کسی ایسی مسجد آرہی ہے جہاں صحیح وقت پر اذان کا پورا پورا اہتمام کیا جاتا ہے تو اذان کی آواز پر افطار کر لینا چاہیے۔ لیکن اگر غروب آفتاب پر یقین نہیں یا وہ آواز کسی ایسی مسجد میں اذان کی ہے جہاں وقت صحیح کا اہتمام نہیں کیا جاتا جیسا کہ عموماً غیر مقلدوں کی آزانیں تو ہر گز اس پر افطار نہ کیا جائے۔ انتظار کریں تا آنکہ غروب آفتاب کا یقین ہو جائے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :8:توپ یا گولے کی آواز یا ریڈیو کے اعلان پر افطار کریں یا نہیں؟

جواب :توپ یا گولے یا ریڈیو پر وقت افطار کا اعلان یاریڈیو کی اذان ، ان سب میں سے حکم شرعی یہ ہے کہ اگریہ امور کسی نامور عالم دین، معتمد علیہ کے حکم پر انجام پاتے ہیں۔ تو یہ بھی غروب آفتاب پر ظن غالب کا ایک ذریعہ ہے۔ افطار کر سکتے ہیں۔ اگرچہ توپ چلانے والے یا ریڈیو پر اعلان کرنے والے فاسق ہوں۔ البتہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات سائرن یا گولے وغیرہ غروب آفتاب سے پہلے ہی حرکت میں آجاتے ہیں ۔ لوگ ان پر اعتبار کرکے روزہ افطار کر لیتے ہیں۔ اور پھر قضاء رکھنی پڑتی ہے۔ اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ جب غروب آفتاب کا ظن غالب ہو جائے افطار کر لیں۔ (فتاویٰ علمائ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :9:جنتریوں اور سحری و افطاری کے نقشوں پر عمل کرنا چاہیے یا نہیں؟

جواب :جنتریاں جوکہ شائع ہوتی ہیں اکثر غلط ہوتی ہیں۔ ان پر عمل جائز نہیں اور اوقات صحیح نکالنے کا فن جسے علم توقیت کہتے ہیں۔ یہاں کے عام علماء بھی اس سے ناواقف محض ہیں۔ لہٰذا سحری و افطاری کے نقشے اگر کسی عالم محقق توقیت داں محتاط فی الدین کے مرتبہ ہوں تو بے شک ان پر عمل کر سکتا ہے۔ یوں ہی ان کے ترتیب دادہ نقشوں اورہدایتوں کی روشنی میں جو نقشے ترتیب دیے جائیں۔ وہ قابل اعتماد ہیں مگر احتیاط اب بھی لازم ہے جبکہ خود ان نقشوں میں پانچ پانچ منٹ کی احتیاط درج ہوتی ہے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :10:روزہ کس چیز سے افطار کرنا مسنون ہے؟

جواب :احادیث میں وارد ہے کہ’’ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے تر کھجوروں سے افطار فرماتے ہیں۔ تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو چند چلو پانی پیتے‘‘۔

سوال نمبر ُُُُُ :11:افطار کے وقت کون سی دعا پڑھنا مستحب ہے؟

جواب :افطار کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ 
الھم لک صمت وبک امنت و علیک تو کلت و علیٰ رزقک افطرت فاغفر لی ماقدمت وما اخرت O الہٰی میں نے تیرے لیے روزہ رکھا، تجھ پر ایمان لایا۔ تجھ پر بھروسہ کیا اور تیری روزی سے افطار کیا تو میرے اگلے پچھلے گناہوں کو بخش دے۔ (طحطاوی وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :12:روزہ دار کو افطار کرانے میںکیا ثواب ہے؟

جواب :حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’جس نے حلال کھانے یا پانی سے روزہ افطار کرایا۔ فرشتے ماہ رمضان کے اوقات میں اس کے لیے استغفار (دعائے مغفرت) کرتے ہیں۔ اور جبرائیل علیہ السلام شب قدر میں اس کے لیے استغفار کرتے ہیں‘‘ ۔ اور ایک روایت میں ہے جو حلال کمائی سے رمضان میں روزہ افطار کرائے۔ رمضان کی تمام راتوں میں فرشتے اس پر درود بھجتے ہیں۔ اور شب قدر میں جبرائیل علیہ الصلٰوۃ والسلام اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔۔ ‘‘۔ اور ایک روایت میں ہے ’’جو روزہ دار کو پانی پلائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سے پلائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا‘‘۔ (طبرانی)

سوال نمبر ُُ ُُُُُ :13:ایک آدمی کے کہنے سے کہ افطار کا وقت ہو گیا ، افطار کرے یا نہ کرے؟

جواب :وقت افطار کی خبر دینے والا اگر عادل ہو یعنی متقی پرہیز گار ، دیندار تو اس کے قول پر افطار کر سکتا ہے۔ جب کہ یہ اس کی بات کو سچی مانتا ہو۔ اور اگر اس کا دل اس کی بات پر نہیںجمتا تو اس کے قول کی بنا پر افطار نہ کرے۔ یوں ہی مستور کے کہنے پر بھی افطار نہ کرے۔ (ردالمحتار وغیرہ)

rozey ke makrohaat ka bayan

روزے کے مکروہات کا بیان

سوال نمبر ُُُُُ :1:روزہ میں جھوٹ ، غیبت وغیرہ کا کیا حکم ہے؟

جواب :جھوٹ، چغلی، غیبت ، گالی دینا، بہودہ بات، کسی کو تکلیف دینا کہ یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں۔ روزہ میں اور زیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزہ مین کراہت آتی ہے۔ (عامہ ء کتب)

سوال نمبر ُُُُُ :2:جھوٹ وغیرہ سے روزے میں کراہت کی کیا وجہ ہے؟

جواب :روزہ صرف اس کا نام نہیں کہ آدمی ظاہری طور پر کھانا پینا وغیرہ چھوڑ دے بلکہ روزہ سے درحقیقت کان، آنکھ، زبان ہاتھ پاؤں اور تمام اعضاء کو گناہ سے باز رکھنا بھی شریعت اسلامیہ کا مقصود ہے۔ تو اگر روزہ سے یہ مقاصد حاصل نہ ہوں تو یہ کہا جا سکتا ہے۔ کہ گویا وہ روزہ رکھا ہی نہیں گیا۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ جسم کا روزہ ہو گیا رو ح کا روزہ نہ ہوا۔ اسی لیے حدیث شریف میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو روزہ دار بری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کچھ حاجت نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ’’روزہ تو یہ ہے کہ لغود بیہودہ باتوں سے بچا جائے‘‘۔

سوال نمبر ُُُُُ :3:روزہ دار کو کسی چیز کے چکھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟

جواب :روزہ دار کو بلا عذر کسی چیز کو چکھنا یا چبانا مکروہ ہے۔ اور چکھنے سے مراد یہ ہے کہ زبان پر رکھ کر مزہ دریافت کر لیں۔ اور اسے تھوک دیں۔ اس میں سے حلق میں کچھ نہ جانے پائے۔ (درمختاروغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :4:کسی چیز کو تھوڑا سا کھا لینے کو بھی چکھنا کہتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب :چکھنے کے وہ معنی نہیں جو آج کل عام محاورہ میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی کسی چیز کا مزہ دریافت کرنے کے لیے اس میں سے تھوڑا کھا لینا کہ یوں ہو تو کراہت کیسی روزہ ہی جاتا رہے گا۔ بلکہ کفارہ کے شرائط پائے جائیں تو کفارہ بھی لازم ہوگا۔ (بہار شریعت)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :5:چکھنے کے لیے عذر کیا ہے؟

جواب :مثلاً عورت کا شوہر بد مزاج ہے کہ ہانڈی میں نمک کم و بیش ہوگا تو اس کی ناراضگی کا باعث ہوگا۔ تو اس وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں۔ یا اتنا چھوٹا بچہ ہے کہ روٹی نہیںکھا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں جو اسے کھلائے جائے کہ حیض و نفاس والی یا کوئی اور بے روزہ ایسا موجود نہیں ہے جو اسے چبا کر دے دے تو بچہ کو کھلانے کے لیے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ نہیں۔ یونہی کوئی چیز خریدی اور اس کا چکھنا ضروری ہے کہ نہ چکھے گا تو نقصان ہو جائے گا تو چکھنے میں حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :6:عورت کا بوسہ لینے اور بدن چھونے کا کیا حکم ہے؟

جواب :عورت کا بوسہ لینا اور گلے لگانا اور بدن چھونا مکروہ ہے جبکہ یہ اندیشہ ہو کہ انزال ہو جائے گا یا جماع میں مبتلا ہو گا۔ اور ہونٹ یازبان چوسنا روزہ میں مطلقاً مکروہ ہے۔ علماء کرام نے بوسہ فا حشہ کو بھی مطلقاً مکروہ فرمایا۔ بوسہ فا حشہ یہ کہ عورت کے لب اپنے لبوں میں لے کر چبائے۔ اور زبان چوسنا بدرجہ اولیٰ مکروہ ہے جبکہ عورت کا لعاب دہن ، جو اس کی زبان چوسنے سے اس کے منہ میں آئے تھوک دے۔ اور حلق میں اتر گیا تو کراہت تو درکنار، روزہ ہی جاتا رہے گا۔ اور اگر قصد اً ایجالت لذت پی لیا تو کفارہ بھی لازم آئے گا۔ (درمختار،ردالمحتار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :7:روزہ میں گلاب وغیرہ سونگھنا مکروہ ہے یا نہیں؟

جواب :گلاب یا مشک وغیرہ سونگھنا، داڑھی میں تیل لگانا اور سرمہ لگانا مکروہ نہیں۔ مگر جب کہ زینت کے لیے سرمہ لگانا یا اس تیل لگا کر داڑھی بڑھ جائے حالانکہ ایک مشت داڑھی ہے۔ تو یہ دونوں باتین بغیر روزہ کے بھی مکروہ ہیں۔ اور روزہ میں بدرجہ اولیٰ۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ :8:روزہ میں مسواک کرنا کیسا ہے؟

جواب :روزہ میں مسواک کرنا مکروہ نہیں بلکہ جیسے اور دنوں میں سنت ہے روزہ میں بھی مسنون ہے۔ مسواک خشک ہو یا تر۔ اگر چہ پانی سے ترکی ہو ۔ زوال سے پہلے کرے یا بعد، کسی وقت مکروہ نہیں (عامۂ کتب) اکثر لوگوں میں مشہور ہے کہ دوپہر کے بعد روزہ دار کے لیے مسواک کرنا مکروہ ہے۔ یہ ہمارے مذہب (حنفیہ) کے خلاف ہے۔ (بہار شریعت)

سوال نمبر ُُُُُ :9:روزہ میں منجن استعمال کرنا مکروہ ہے یا نہیں؟

جواب :روزہ میں منجن استعمال کرنا ناجائز و حرام تو نہیں جب کہ اطمینان کافی ہو کہ ا س کا کوئی جز حلق میں نہ جائے گا مگر بے ضرورت صحیحہ کراہت ضرور ہے۔ (فتاویٰ رضویہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :10:روزہ میں کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب :روزہ دار کے لیے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے۔ کلی میں مبالغہ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ بھر منہ پانی لے۔ اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ یہ ہے کہ جہاں تک نرم گوشت ہوتا ہے ۔ہر بار اس پر پانی بہہ جائے اور ناک کی جڑ تک پانی پہنچ جائے۔ اور دونوں صورتوں میں روزہ کی حالت میں مبالغہ مکروہ ہے اور وضو و غسل کے علاوہ ٹھنڈپہنچانے کی غرض سے کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا یا ٹھنڈکے لیے نہانا۔ بلکہ بدن پر بھیگا کپڑا لپیٹنا مکروہ نہیں۔ ہاں اگر پریشانی ظاہر کرنے کے لیے بھیگا کپڑا لپیٹا تو مکروہ ہے کہ عبادت میں دل تنگ ہونا اچھی بات نہیں۔ (عالمگیری،ردالمحتار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :11:روزہ میں غسل جنابت کب اور کس طرح کرے؟

جواب :رمضان المبارک میں اگر رات کو جنب ہوا جس کے باعث اس پر غسل فرض ہے تو بہتر یہی ہے کہ قبل طلوع فجر نہالے تاکہ روزے کا ہر حصہ جنابت (ناپاکی) سے خالی ہو۔ اور اگر نہیں نہایا تو بھی روزہ میں کچھ نقصان نہیں۔ مگر مناسب یہ ہے کہ غر غر اور ناک میں جڑ تک پانی چڑھانا (جسے استنشاق کہتے ہیں) یہ دو کام طلوع فجر سے پہلے کرلے۔ کہ پھر روزہ میں نہ ہو سکیں گے۔ 
اور اگر نہانے میں اتنی تاخیر کی کہ دن نکل آیا اور نماز قضا کر دی تو یہ اور دونوں میں بھی گناہ ہے اور رمضان میں اور زیادہ کہ اس سے روزہ کی نورانیت ہی جاتی رہتی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :12:پانی میںریاح خارج کرنا کیسا ہے؟

جواب :پانی کے اندر( مثلاً نہر ، ندی ، تالاب وغیرہ میں نہاتے وقت) ریاح خارج کرنے سے روزہ تو نہیں جاتا مگر مکروہ ہے۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :13:روزہ میں استنجا کرنے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے یا نہیں؟

جواب :روزہ دار کو استنجے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے۔ یعنی اور دنوں میں حکم ہے کہ استنجا کرتے اور طہارت لیتے وقت کشادہ ہو کر بیٹھیں۔ پاخانہ کا مقام، سانس کا زور نیچے دے کر ڈھیلا رکھیں اور خوب اچھی طرح دھوئیں۔ مگر روزہ کے دنوں میں نہ زیادہ پھیل کر بیٹھے نہ نیچے کو زور دیا جائے نہ مبالغہ کرے۔ (عالمگیری )

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :14:محنت و مشقت کا کام روزے میں جائز ہے یا نہیں؟

جواب :رمضان کے دنوں میں ایسا کام کرنا جائز نہیں جس سے ایسا ضعف آجائے کہ روزہ توڑنے کا ظن غالب ہو۔ لہٰذا نان بائی کو چاہیے کہ دوپہر تک روٹی پکائے پھر باقی دن میں آرام کرے۔ (درمختار) 
یہی حکم معمار و مزدور اور مشقت کے کام کرنے والوں کا ہے کہ زیادہ ضعف کا اندیشہ ہو تو کام میں کمی کر دیں کہ روزے ادا کر سکیں۔ (بہار شریعت) مقصودیہ ہے کہ کمزوری کو بہانہ بنا کر روزے خور نہ بنیں۔ اور خدائی احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر کے غضب الہٰی نہ خریدیں۔ 

rozey ke makrohaat ka bayan

کفارے کا بیان

سوال نمبر ُُُُُ :1:روزہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟

جواب :روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ممکن ہو تو ایک رقبہ یعنی باندی یا غلام آزاد کرے اور یہ نہ کر سکے مثلاً اس کے پاس نہ لونڈی غلام ہے۔ نہ اتنا مال کہ خرید یا مال تو ہے مگر رقبہ میسر نہیں جیسا آج کل یہاں پاک و ہند میں تو پے درپے ساٹھ روزے رکھے۔ یہ بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مساکین کو بھر بھر پیٹ دونوں وقت کھانا کھلائے۔ (عامہ ء کتب)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :2:کفارہ کے روزوں میں سے اگر بیچ میں کوئی روزہ چھوٹ جائے تو پہلے والے روزے شمار میں آئیں گے یا نہیں؟

جواب :روزے رکھنے کی صورت میں اگر درمیان کا ایک روزہ بھی چھوٹ گیا تو نئے سرے سے ساٹھ روزے رکھے۔ پہلے کے روزے شمار میں نہ آئیں گے۔ اگرچہ انسٹھ رکھا چکا تھا اگر چہ بیماری وغیرہ کسی عذر کے سبب چھوٹا ہوا۔ (عامہ ء کتب)

سوال نمبر ُُُُُ :3:حیض درمیان میں آجائے تو کفارہ کے روزوں کا کیا حکم ہے؟

جواب :عورت کو کفارہ کے روزوں کے درمیان اگر حیض آجائے تو حیض کی وجہ سے جتنے ناغے ہوئے یہ ناغے شمار نہیں کیے جائیں گے۔ یعنی حیض سے پہلے کے روزے اور بعد والے روزے دونوں مل کر ساٹھ ہو جانے سے کفارہ ادا ہو جائے گا۔ (کتب کثیرہ) مگر لازم ہے کہ حیض سے فارغ ہوتے ہی روزہ شروع کر دے۔

سوال نمبر ُُُُُ :4:کفارہ کے دوران عورت کے بچہ پیدا ہو تو اب کیا حکم ہے؟

جواب :اگر اثنائے کفارہ میں عورت کے بچہ پیدا ہو تو اسے حکم ہے کہ وہ سرے سے روزے رکھے۔ یوں ہی اگر عورت نے رمضان کا روزہ توڑ دیا اور کفارہ میں روزے رکھ رہی ہے کہ حیض آگیا اور اس حیض کے بعد آئسہ ہو گئی یعنی اب ایسی عمر ہوگئی کہ حیض نہ آئے گا تو سرے سے روزے رکھنے کا حکم دیا جائے گا کہ اب وہ پے درپے دوہ مہنے کے روزے رکھ سکتی ہے۔ (درمختار، روالمحتار)

سوال نمبر ُُُُ ُُُُُ :5:کفارہ کے روزوں میں کوئی اور شرط ہے یا نہیں؟

جواب :ہاں روزوں سے کفارہ ادا کرنے میں یہ شرط بھی ہے کہ نہ اس مذت کے اندر ماہ رمضان ہو نہ عید الفطر نہ عید الاضحٰی نہ ایام تشریق۔ ہاں اگر مسافر سے تو ماہ رمضان میں کفارہ کی نیت سے روزے رکھ سکتاہے۔ مگر ایام منہیہ میں (روزے رکھنے سے جن دنوں میں ممانعت ہے ) اسے بھی اجازت نہیں (جوہرہ ، درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :6:کفارہ کے روزوں میں (۶) کی گنتی ضروری ہے یا نہیں؟

جواب :روزے اگر چاند کی پہلی تاریخ سے رکھے تو دوسرے مہینے کے ختم پر کفارہ ادا ہو گیا اگرچہ دونوں مہینے ۲۹ دن کے ہوں کہ دو ماہ کامل ہوگئے اور اگر پہلی تاریخ سے نہ رکھے ہوں تو ساٹھ پورے رکھنے ہوں گے۔ اور اگر پندرہ روزے رکھنے کے بعد چاند ہوا پھر اس مہینے کے روزے رکھ لیے اور یہ ۲۹ دن ہوئے۔ جب بھی کفارہ ادا ہو جائے گا۔ (درمختار، ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :7:کفارہ کا روزہ توڑ دیا تو کیا حکم ہے؟

جواب :کفارہ کا روزہ توڑ دیا ۔ خواہ سفر وغیرہ کسی عذر سے توڑا۔ یا بغیر عذر تو سرے سے روزہ رکھے ۔(درمختار )

سوال نمبر ُُُُُ :8:اگر کسی نے رمضان کے دو روزے توڑ دیے تو کیا حکم ہے؟

جواب :اگر دو روزے توڑے اور دونوں رمضان کے ہوں تو دونوں کے لیے دو کفارے دے اگرچہ پہلے رمضان کا کفارہ نہ ادا کیا ہو۔ اور اگر دونوں ایک ہی رمضان کے ہوں اور پہلے کا کفارہ ادا نہ کیا ہو تو ایک ہی کفارہ دونوں کے لیے کافی ہے۔ (جو ہرہ نیرہ) اور پہلے کا کفارہ ادا کر چکا تھا کہ دوسرا توڑ دیا تو اب اس کا کفارہ پھر ادا کرے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :9:جو شخص روزے نہ رکھ سکے و ہ کفارہ کس طرح ادا کرے؟

جواب :روزے رکھنے پر بھی اگر قدرت نہ ہو مثلاً بیمار ہے اور اچھے ہونے کی امید نہیں یا بہت بوڑھا ہے تو حکم ہے کہ وہ ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔ (درمختار وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :10:اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دم سے نہ کھلائے تو حکم کیا ہے؟

جواب :کفارہ میں کھانا کھلانے والے کو یہ اختیار ہے کہ ایک دم سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے یا متفرق طور پر ۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس اثناء میںر وزوں پر قدرت حاصل نہ ہو۔ ورنہ کھلانا صدقہ نفل ہوگا۔ اور کفارے میں روزے رکھنے ہوں گے۔ (عالمگیری )

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :11:اگر ایک وقت کے مساکین دوسرے وقت نہ ہوں تو کیا حکم ہے؟

جواب :اگر ایک وقت ساٹھ مساکین کو کھانا کھلایا اور دوسرے وقت ان کے سوا دوسرے ساٹھ مساکین کو کھلایا تو کفارہ ادا نہ ہوا۔ بلکہ ضروری ہے کہ پہلوں یا پچھلوں کو پھر ایک وقت کھلائے۔ (درمختار )

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :12:کفارہ کا کھانا کھانے والے مساکین کا بالغ ہونا شرط ہے یا نہیں؟

جواب :ہاں یہ بات شرط ہے کہ جن مسکینوں کو کھانا کھلایا ہو ان میں کوئی نابالغ نہ ہو۔ ہاں اگر کوئی ان میں مراہق (قریب البلوغ، تقریباً 15سال نہ کہ 15سال کامل کا) ہو تو وہ شمار میں آسکتاہے۔ اور اگر ان مساکین میں نابالغ بھی تھے۔ اور جوان آدمی کی پوری خوراک کا انہیں مالک کر دیا تو کافی ہے۔ (ردالمحتاروغیرہ ) عربی مدارس اور یتیم خانے کے طلبہ کو کھلائیں تب بھی یہ لحاظ ضروری ہے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :13:جو لوگ کھانا کھا چکے ہیں انہیں کفارہ کا کھلایا جائے تو کیا حکم ہے؟

جواب :کھلانے میں پیٹ بھر کر کھلانا شرط ہے۔ اگر چہ تھوڑے ہی کھانے میں آسودہ ہو جائیں اور اگر پہلے ہی سے کوئی آسودہ تھا تو اس کا کھانا کافی نہیں ۔(درمختار،ردالمحتارو غیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :14:کفارہ کے کھانے میں کیا کھانا دیا جائے؟

جواب :بہتر یہ ہے کہ گیہوں کی روٹی اور سالن کھلائے۔ اور اس سے بھی اور اچھا ہو تو اور بہتر ۔ ہاں جو کی روٹی ہو تو سالن ضروری ہے۔ (درمختار،ردالمحتاروغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :15:ایک ہی مسکین کو کھانا کھلایا جائے تو کیا حکم ہے؟

جواب :اگر ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن تک دونوں وقت کھانا کھلایا یا ہر روز بقدر صدقہ فطر اسے دے دیا جب بھی ادا ہو گیا۔ اور اگر ایک ہی دن میں ایک مسکین کو سب دے دیا تو صرف اسی ایک دن کا ادا ہوا۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ :16:ساٹھ مسکین کو دو وقت کی بجائے ۔ ایک سو بیس مساکین کو ایک وقت کھلایا تو کفارہ ادا ہوا یا نہیں؟

جواب :ایک سو بیس مساکین کو ایک وقت کھانا کھلا دیا تو کفارہ ادا نہ ہوا بلکہ ضروری ہے کہ ان میں سے ساٹھ کو پھر ایک وقت کھلائے۔ خواہ اسی دن یا کسی دوسرے دن اور اگر وہ نہ ملیں تو دوسرے ساٹھ مساکین کو دونوں وقت کھلائے۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :17:کھلانے کی بجائے اگر غلہ وغیرہ دیا جائے تو فی کس کتنا ہونا چاہیے؟

جواب :ہاں بعض اوقات مساکین کو دونوں وقت کھلانا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ یا اور ایسی صورتیں در پیش آجاتی ہیں۔ اس لیے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر مسکین کو بقدر صدقہ فطر یعنی نصف صاع گندم یا ایک صاع جو یا ان کی قیمت کا مالک کر دیا جائے مگر اباحت کافی نہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبح کو کھلا دے اور شام کو قیمت دے دے ۔ یا شام کو کھلادے اور صبح کے کھانے کی قیمت دے دے۔ یا دو دن صبح کو یا دو دن شام کو کھلائے۔ یا تیس کو کھلائے اور تیس کو دے دے۔ غرض یہ کہ ساٹھ کی تعداد جس طرح چاہے پوری کرے۔ اس کا اختیار ہے۔ یا پاؤ صاح گیہوں اور نصف صاع جو ایک مساکین کو دے دے یا کچھ گیہوں یا جو دے، باقی کی قیمت، ہر طرح اختیار ہے۔ (درمختار،ردالمحتار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :18:کفارہ صوم میں امیر و غریب یکساں ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے؟

جواب :آزاد غلام، مر دو عورت، بادشاہ و فقیر سب پر روزہ توڑنے سے کفارہ لازم ہے۔ اس حکم میں سب یکساں ہیں۔ (ردالمحتار )

سوال نمبر ُُُُُ :19:کفارہ میں گند م و جو کے علاوہ اور کوئی غلہ دیں تو کس حساب سے دیں؟

جواب :گند م و جو کے سوا، چاول دھا ن وغیرہ کوئی غلہ، کسی قسم کا دیا جائے۔ اس میں وزن کا کچھ لحاظ نہ ہوگا۔ بلکہ اسی ایک صاع جو نیم صاع گندم کی قیمت ملحوظ رہے گی۔ اگر اس کی قیمت کے قدر ہے تو کافی ہے ورنہ ناکافی۔ مثلاً نصف صاح گیہوں کی قیمت دو روپیہ ہے تو روپیہ سیروالے چاول کافی ہوں گے۔ وعلیٰ ہذالقیاس اور قیمت میں نرخ بازار آج کا معتبر نہ ہوگا یعنی جس دن ادا کر رہے ہیں بلکہ اس دن کا معتبر ہوگا جس دن کفارہ واجب ہوا۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :20:کفارہ صیام کا مصرف کیا ہے؟

جواب :روزوں کے کفارہ میں کھانا کھلائیں یا بقدر صدقہ فطر گیہوں جو یا ان کی قیمت دیں۔ یہ لحاظ ضروری ہے کہ اس کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ یا صدقہ فطر کے مستحق ہیں۔ یعنی کفارہ صوم کسی سید بلکہ کسی ہاشمی کو بھی نہیں دے سکتے۔ اپنی اولاد جیسے بیٹا ، بیٹی ، پوتا ، پوتی اور نوا سا، نواسی کو نہیں سکتے۔ اگرچہ یہ بالکل نادار اور بے سہارا ہوں ۔ یوں ہی کفارہ دینے والا جس کی اولا د میں ہے جیسے ماں، باپ، داد ا ، دادی اور نانا، نانی انہیں نہیں دے سکتا۔ اور اپنے اقرباء یعنی قریبی رشتہ داروں مثلاً بہن بھائی، چچا ، ماموں ، خالہ ، پھوپھی، بھتیجا، بھتیجی، بھانجہ ، بھانجی ان کو دے سکتے ہیں۔ جبکہ اور کوئی مانع (رکاوٹ) نہ ہو۔ یوں ہی نوکروں کو دے سکتے ہیں۔ جبکہ اجرت میں محسوب (شمار) نہ ہو۔ زوجین بھی ایک دوسرے کو نہیں دے سکتے۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)

un soraton ka bayan jin se kafarah lazim hai

اُن صورتوں کا بیان جن سے کفارہ بھی لازم ہے

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :1:وہ کون کون سی صورتیں ہیں جن میں کفارہ بھی لازم ہے؟

جواب : روزہ کے منافی جو امور ہیں۔ جب ظاہری اور معنوی دونوں صورتوں میں جمع ہو جائیں۔ تو یہ جرم ، شر یعت میںپورا جرم مانا جاتا ہے۔ اور روزہ کا کفارہ لازم آتا ہے۔ اور اگر ایک چیز مثلاً صورت افطار پائی جائے اور دوسری چیز یعنی معنوی افطار نہ پائی جائے تو اسے جرم ناقص کہا جاتا ہے۔ اور اس صورت میں صرف قضا لازم آتی ہے جیسا کہ پہلے گزرا۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :2:صورۃ افطار اور معنی افطار سے کیا مراد ہے؟

جواب : صورۃ افطار یا افطار صوری و ظاہری یہ ہے کہ کوئی دو ا یا غذا یا اس کے مفید مطلب کوئی چیز منہ کی راہ سے حلق کے نیچے اترے جسے عربی میں ابتلاع کہتے ہیں یعنی نگلنا۔ 
اور معنی افطار یا افطار معنوی و باطنی یہ ہے کہ پیٹ میں کسی اور زریعہ سے ایسی چیز پہنچ جائے جس میں اصلاح بدن ہو یعنی دوا اور غذا یا کوئی اور نفع رساں چیز ۔ لہٰذا منہ کے راستے اگر گھاس ، کنکر یا پتھر و غیرہ نگل گیا تو یہ صورۃ افطار ہے۔ معنی نہیں کیونکہ یہ چیزیں نہ دوا ہیں نہ غذا اور نہ نفع رساں ۔ اور اگر دوا یا غذا وغیرہ منہ کے علاوہ کسی اور زریعہ سے جسم انسانی میں پہنچائی جائے اور وہ پیٹ یا دماغ تک پہنچ جائے تو یہ معنی افطار ہے۔ 
اسی طرح ایک صورۃ یعنی صوری و ظاہری جماع ہے یعنی ایک کی شرمگاہ کا دوسرے کی شرمگاہ میں داخل ہونا اور ایک معنی یعنی معنوی جماع سے یعنی انزال ہو جاتا جب کہ شہوت کے ساتھ ہو مثلاً عورت کا بوسہ لیا اسے چھو ا یا چمٹا یا اور انزال ہو گیا تو یہ صورۃ جماع نہیں معنی جماع ہے۔ 
تو کفارہ اس وقت لازم آتا ہے جب روزہ کو فاسد کرنے والی چیزیں صورۃ اور معنی دونوں طرح پائی جائیں اور اگر ایک موجود ہے دوسری نہیں کفارہ لازم نہ آئے گا صرف قضا لازم آئے گی۔ (فتح القدیر، مراتی الفلاح وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :3:کفارہ لازم آنے کے لیے جماع میں انزال شرط ہے یا نہیں؟

جواب :رمضان میں روزہ دار عاقل بالغ مقیم نے روزہ رمضان کی نیت ادا سے روزہ رکھا اور کسی آدمی کے ساتھ جو قابل شہوت ہے اس کے آگے یا پیچھے کے مقام سے جماع کیا تو اس صورت میں انزال شرط نہیں۔ صرف و خول حشفہ (سپاری کے غائب ہو جانے) پر کفارہ لازم آجائے گا کہ انزال کا سبب قوی پا یا گیا انزال ہو یا نہ ہو۔ (درمختار وغیرہ) اس بنا پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :4:کیا ہر چیز کے قصداً کھانے پینے سے کفارہ لازم آ ئے گا؟

جواب : نہیں بلکہ اگر روزے دار نے کوئی دوا یا غذا کھائی یا پانی پیا یا کوئی چیز لذت کے لیے کھائی پی یا ایسی چیز پی جس کی طرف طبیعت کا میلان ہے اور طبیعت اس کی خواہش رکھتی ہے مثلا حقہ، بیڑی سگریٹ ، تمباکو ، تو کفارہ لازم آئے گا ور نہ نہیں۔ (درمختار ، ہدایہ وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :5:روزہ دار نے اپنے غلط گمان کی وجہ سے روزہ توڑ دیا تو حکم شرعی کیا ہے؟

جواب : روزہ دار نے اگر کوئی ایسا فعل کیا جس سے افطار کا گمان نہ ہوتا ہو اور اس نے یہ گمان کرکے کہ روزہ ٹوٹ گیا ہے قصداً کھا پی لیا مثلا ً فصد لیا یا انجکشن لگوایا یا اپنی آنکھوں میں سرمہکا جل لگا یا عورت کو چھوا یا بوسہ لیا یا ساتھ لٹایا۔ مگر ان صورتوں میں انزال نہ ہوا۔ اب ان افعال کے بعد قصداً کھا پی لیا تو ان سب صورتوں میں روزہ کی قضااور کفارہ دونوں لازم ہیں۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :6:کفارہ لازم ہونے کے لیے اور بھی شرط ہے یا نہیں؟

جواب : ہاں کفارہ لازم ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ روزہ توڑنے کے بعد کوئی ایسا امر واقع نہ ہوا ہو جو روزہ کے منافی ہے۔ یا بغیر اختیار ایسا امر نہ پایا گیا ہو جس کی وجہ سے روزہ افطار کرنے یا چھوڑ دینے کی اجازت ہوتی۔ مثلا ً عورت کو اسی دن میں حیض یا نفاس آ گیا۔ یا روزہ توڑنے کے بعد اسی دن ایسا بیمار ہو گیا جس سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے تو کفارہ ساقط ہے اور سفر سے ساقط نہ ہوگا۔ کہ یہ اختیاری امر ہے یوں ہی اگر اپنے آپ کو زخمی کر لیا اور حالت یہ ہوگئی کہ روزہ نہیں رکھ سکتا تو کفارہ ساقط نہ ہو گا۔ (جوہرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :7:مٹی کھانے سے کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں؟

جواب :مٹی کھانے سے کفارہ واجب نہیں۔ مگر وہ مٹی جس کے کھانے کی اسے عادت ہے کھائی تو کفارہ واجب ہے۔ جیسا کہ عموماً عورتیں ملتانی مٹی یا چولہے کی بھٹ کھاتی ہیں۔ اگرچہ یہ سخت نقصان دہ بھی ہے۔ یوں ہی گل ارمنی کھائی تو خواہ اسے عادت ہو یا نہ ہو کفارہ لازم آئے گا کیونکہ یہ دوا ہے اور کوئی چیز دوا یا غذا کھانے سے کفارہ لازم ہو جاتا ہے۔ (نور الایضاح وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :8:کچا یا سڑا ہو گوشت کھایا تو کفارہ لازم ہے یا نہیں؟

جواب :کچا گوشت کھایا اگرچ مردار کا ہو تو کفارہ لازم ہے مگر جب کہ گوشت کچا خواہ پکا سڑ گیا ہو یا اس میں کیڑے پڑگئے ہوں تو کفارہ نہیں۔ (ردالمحتاروغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :9:کسی بزرگ کے منہ کا لقمہ کھا لیا تو کفارہ لازم آئے گا یا نہیں؟

جواب :اپنے کسی معظم دینی کے منہ کا لقمہ یا اس کا لعاب دہن (تھوک) تبرک کے لیے کھا پی لیا تو بھی کفارہ لازم ہے۔ (ردالمحتار) ہاں کسی اور کا تھوک نگل گیا یا اپنا لعاب تھوک کر چاٹ لیا تو اس صورت میں کفارہ نہیں مگر یہ سخت قابل نفرت حرکت ہے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :10:کفارہ لازم نہ ہونے کے لیے کوئی اور بھی شرط ہے یا نہیں؟

جواب :جن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم نہیں ان میں شرط ہے کہ ایک ہی بار ایسا ہو اور معصیت و نافرمانی کا قصد نہ ہو۔ اگر بار بار ایسا کیا تو ضرور کفارہ لازم آئے گا۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :11:کسی کی چیز چھین کر کھا پی گیا تو کفارہ ہے یا نہیں؟

جواب :اگر کسی کی کوئی چیز غصب کرکے (چھین جھپٹ کر) کھا لی تب بھی کفارہ لازم ہے۔ یونہی نجس شوربے میں روٹی بھگو کر کھالی تو کفارہ لازم ہے۔ (جوہرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :12:پستہ یا اخروٹ یا بادام مسلم نگل گیا تو کیا حکم ہے؟

جواب :پستہ یا اخروٹ مسلم یا خشک بادام مسلم نگل یا چھلکے انڈایا چھلکے کے ساتھ انار کھا لیا تو کفارہ نہیں۔ ہاں خشک پستہ یا خشک بادام اگر چبا کر کھایا اور اس میں مغز بھی ہو تو کفارہ ہے۔ یوں ہی تر بادام مسلم نگلنے میں بھی کفار ہ ہے۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :13:نمک کھانے پر کفارہ لازم ہے یا نہیں؟

جواب :نمک اگر تھوڑا کھایا جیسا کہ عموماً استعمال کیا جاتا ہے تو کفارہ لازم ہے اور زیادہ کھا یا تو کفارہ نہیں۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :14:اپنے منہ کا نوالہ نکال کر پھر کھا گیا تو کفارہ لازم آئے گا یا نہیں؟

جواب :اس نے خود اپنے منہ سے نوالہ نکال کر کھا لیا یادوسرے نے نوالہ چبا کر دیا تو کفارہ نہیں۔ (عالمگیری) بشرطیکہ اس دوسرے کے چبائے ہوئے کو لذت یا بطور تبر ک نہ کھائے ورنہ کفارہ لازم آئے گا۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :15:سحری کھاتے صبح ہوگئی اور نوالہ نگل گیا تو کیا حکم ہے؟

جواب :سحری کا نوالہ منہ میں تھا کہ صبح طلوع ہوگئی یا بھول کر کھا رہا تھا ۔ نوالہ منہ میں تھا کہ یاد آگیا اور نوالہ نگل گیا تو دونوں صورتوں میں کفارہ واجب ہے۔ مگر جب منہ سے نکل کر پھر کھایا ہو تو صرف قضا واجب ہوگی۔ کفارہ نہیں۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُ :16:چنے کا ساگ یا درخت کے پتے کھائے تو کیا حکم ہے؟

جواب :چنے کا ساگ کھایا تو کفارہ واجب ہے ۔ یہی حکم درخت کے پتوں بلکہ تمام نباتات کا ہے جبکہ کھائے جاتے ہوں ورنہ نہیں۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :17:خربوزے یا تربوز کے چھلکے کا کیا حکم ہے؟

جواب :خربوزے یا تربوز کے چھلکے اگر خشک ہوگئے ہوں اور عموماً خراب ہی ہو جاتے ہیں یا ایسی حالت میں ہوں کہ لوگ اس کے کھانے سے گھن کر تے ہوں تو کفارہ نہیں۔ ورنہ ہے (عالمگیری) جیسا کہ بہت گھروں میں تربوز کے چھلکے پکا کر کھائے جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس طرح کھانے میں کفارہ ضرور لازم آئے گا۔ جب کہ قصداً ہو۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :18:کچے چاول باجرہ جوار وغیرہ کھانے کا کیاحکم ہے؟

جواب :کچے چاول، باجرا، جوار، مسور ، مونگ کھائی تو کفارہ نہیں۔ یہی حکم کچے جو کا ہے اور بھنے ہوئے ہوں کہ لوگ رغبت سے اسے کھاتے ہیں۔ جیسے بھنے ہوئے گیہوں جو یا پر کل مر مر ے یا مکا کی کھیلیں تو کفارہ لازم ہے۔ اسی طرح بالوں میں سے ہرے دانے نکال کر کھائے جیسا کہ چنے مٹہ کے دانے تو بھی کفارہ لازم ہوگا۔ (عالمگیری، مراتی الفلاح وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :19:مشک ، زعفران وغیرہ کھانے اور مثلا ً تربوز کا پانی پینے پر کفارہ ہے یا نہیں؟

جواب :مشک ، زعفران کا فوریا سرکہ کھایا خربوزے ، تربوز ، ککڑی، کھیرا ، باقلا کا پانی پیا تو کفارہ لازم ہے۔ (عالمگیری)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :20:کسی کی غیبت کی اور یہ سمجھ کر کھا پی لیا کہ روزہ ٹوٹ گیا تو کیا حکم ہے؟

جواب :کسی کی غیبت کی یا تیل لگایا یا پھر یہ گمان کر لیا کہ روزہ جاتا رہا۔ یا کسی عالم ہی نے روزہ جانے کا فتویٰ دے دیا اب اس نے کھا پی لیا جب بھی کفارہ لازم ہے۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :21:بھول کر کھا پی لیا ور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے روزہ نہیں جاتا پھر کھا پی لیا تو اب حکم شرعی کیا ہے؟

جواب :بھول کر کھایا پیا یا جماع کیایا اسے قے آئی اور ان سب صورتوں میں اسے معلوم تھا کہ روزہ نہیں گیا۔ پھر اس کے بعد کھا پی لیا تو کفارہ لازم نہیں کہ روزہ کی حالت میں یہ چیزیں درحقیقت روزہ توڑ دیتی ہیں تو روزہ کھولنے یا توڑنے کے لیے گمان کا یہ جائز محل ہے تو شبہ کی وجہ سے کفارہ نہیں۔ اور اگر احتلام ہو اور اسے معلوم تھا کہ روزہ نہ گیا پھر کھا لیا تو کفارہ لازم ہے ورنہ نہیں۔ (عالمگیری وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ :22:شروع میں مجبوری سے اور پھر اپنی خوشی سے جماع میں مشغول رہا تو کیا حکم ہے؟

جواب :مرد کو مجبور کرکے جماع کرایا یا عورت کو مرد نے مجبور کیا پھر اثنائے جماع میں اپنی خوشی سے جماع میں مشغول رہا یا رہی تو کفاری لازم نہیں کہ روزہ تو پہلے ٹوٹ چکا ہے۔ (جوہرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :23:مجبوری سے کیا مراد ہے؟

جواب :مجبوری سے مراد کراہ شرعی ہے جس میں قتل یا عضو کاٹ ڈالنے یا ضرب شدید (سخت مارپیٹ) کی صحیح دھمکی دی جائے اور روزہ دار بھی سمجھے کہ اگر میں اس کا کہنا نہ مانوں گا تو جو کہتا ہے کر گزرے گا۔ (عامۂ کتب)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :24:تل منہ میں ڈال کر نگل جائے تو کفارہ ہے یا نہیں؟

جواب :تل یا تل برابر، کھانے کی کوئی چیز باہر سے منہ میں ڈال کر بغیر چبائے نگل گیا تو روزہ گیا اور کفارہ واجب (درمختار) مگر اسی مقدار کی کوئی چیز چبائے اور وہ تھوک کے ساتھ حلق سے اتر گئی تو روزہ نہ گیا ۔ کہ اتنی قلیل مقدار کا چبانا ہی کیا اور وہ چبائی بھی جائے گی تو حلق میں نہیں پہنچے گی اور فساد روزہ کا حکم نہ دیا جائے گا۔ ہاں اگر اس کا مزاہ حلق میں محسوس ہوتا ہو تو روزہ جاتا رہا ۔ (عالمگیری وغیرہ)

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :25:جن صورتوں میںا فطار کا گمان نہ تھا اور روزہ دار نے یہ گمان کرکے کہ روزہ ٹوٹ گیا قصداً کھا پی لیا تو کفارہ واجب ہے یا نہیںجب کہ مفتی نے فتویٰ سے اس کے گمان کے مطابق دے دیا؟

جواب :جن صورتوں میں افطار کا گمان نہ تھا اور اس نے گمان کر لیا۔ اگر کسی مفتی نے فتویٰ دے دیا تھا کہ روزہ جاتا رہا اور وہ مفتی ایسا ہو کہ اہل شہر کا اس پر اعتماد ہو اس کے فتویٰ دینے پر اس نے قصداً کھا پی لیا۔ یا اس نے کوئی حدیث سنی تھی۔ جس کے صحیح معنی نہ سمجھ سکا اور اس غلط معنی کے لحاظ سے جان لیا کہ روزہ جاتا رہا۔ اور قصداً کھا پی لیا تو اب کفارہ لازم نہیں۔ اگر چہ مفتی نے غلط فتویٰ دیا یا جو حدیث اس نے سنی وہ ثابت نہ ہو۔ (درمختار وغیرہ) مگر عوام الناس کا یہ کام نہیں کہ براہ راست حدیث سے دلیل لائیں ورنہ ٹھو کر یں کھائیں گے۔

سوال نمبر ُُُُُ ُُُُُ :26:بخار کی باری کے گمان میں روزہ توڑ دیا تو کیا حکم ہے؟

جواب :اگر کسی کو باری سے بخار آتا تھا اور آج باری کا دن تھا۔ اس نے یہ گمان کرکے کہ بخار آئے گا روزہ قصد اً توڑ دیا تو اس صورت میں کفارہ ساقط ہے۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُُ :27:عورت نے حیض کے گمان میں روزہ توڑ دیا تو کیا حکم ہے؟

جواب :عورت کو معین تاریخ پر حیض آتا تھا اور آج حیض آنے کا دن تھا۔ عورت نے قصداً روزہ توڑ دیا اور حیض نہ آیا تو کفارہ لازم نہ آیا۔ (درمختار)

سوال نمبر ُُُُ :28:جوشخص کسی کا روزہ توڑ وادے اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب :بلاضرورت اور شرعی مجبوری کے بغیر فرض روزہ زبردستی تڑوانے والا شیطان مجسم اور مستحق نار جنہم ہے۔ اور بغیر سچی مجبوری کے فقط کسی کے بار ڈالنے یا زبر دستی کرنے سے فرض روزہ توڑنے والے پر عذاب ہے۔ اور روزہ ادائے رمضان کا تھا تو حسب شرائط اس پر کفارہ واجب مثلاً کسی کے بار بار اصرار سے تنگ آکر روزہ توڑ دیا تو یہ اکراہ شرعی نہیں او ر لوگ اسے بھی مجبوری یا زبرستی کہہ دیں تو ان کی بات معتبر نہیں۔ ہاں اکراہ شرعی ہو تو بے شک کفارہ نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)

Copyright @ 2013 Islamic Mission 786. Designed by Islamic Mission 786